سیدنا نعیمؓ کی حیرت آفرین داستان

جب مکہ اور نجد سے پیش قدمی کرنے والے یہ دونوں لشکر مدینہ کی سطح مرتفع کے قریب پہنچے تو بنو نصیر کے یہودی زعماء مدینہ میں بنو قریظہ کے یہودی سرداروں کے پاس پہنچے اور ان کے اوپر اس سلسلے میںکافی دبائو ڈالا کہ وہ اس جنگ میں نبی کریمؐ کے خلاف مکہ اور نجد سے آنے والی فوجوںکا ساتھ دیں، مگر بنو قریظہ کے سرداروں نے ان سے کہا یہ چیز جس کی طرف تم ہم کو دعوت دے رہے ہو، اگرچہ ہماری مطلوبہ پسندیدہ چیز ہے، لیکن تم کو معلوم ہے کہ ہمارے اور محمدؐ کے درمیان اس شرط پر ایک معاہدہ ہو چکا ہے کہ ہم آپس میں صلح و آتشی کے ساتھ رہیں گے تاکہ دونوں فریق مدینہ میں امن و اطمینان کے ساتھ رہ سکیں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ابھی اس معاہدے کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی۔ ہمیں اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ اگر محمدؐ اس جنگ میں فتح یاب ہوئے تو معاہدے کی خلاف ورزی کے جرم میں ہم پر سخت گرفت کریں گے اور ہمیں مدینہ میں نیست و نابود کر کے دم لیں گے۔ لیکن بنو نضیر کے سردار ان کو برابر نقض عہد پر ابھارتے، اس کو مزین کر کے ان کے سامنے پیش کرتے اور ان کو سبز باغ دکھاتے رہے کہ اب کی بار محمدؐ کو زبردست تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آخر کار بنو قریظہ کے یہودی ان کے سامنے ڈھیلے پڑ گئے اور انہوںنے رسول اکرمؐ کے ساتھ کیے ہوئے اپنے معاہدے کو توڑ دیا اور صلح نامے کی دستاویز کو پھاڑ کر رسول اکرمؐ کے خلاف قریش و غطفان کی متحد فوج کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ مسلمانوں کے اوپر اس کا ایسا اثر ہوا جیسے ان کے اوپر بجلی گر پڑی ہو۔
دشمن کی فوجوں نے ہر طرف سے مدینہ کا محاصرہ کر کے خوراک اور ضروریات زندگی کی رسد منقطع کر دی اور رسول اکرمؐ کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دشمن کے دونوں جبڑوں کے درمیان پھنس گئے ہیں، کیوں کہ ایک طرف قریش اور غطفان کے لشکر مدینہ سے باہر مسلمانوں کے سامنے خیمہ زن تھے اور دوسری طرف اندرون شہر بنو قریظہ کے یہودی مسلمانوں کے پیچھے گھات لگائے ان کے اوپر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے، پھر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں نفاق کا مرض تھا، اپنے سینوں میں پوشیدہ خباثتوں کا اظہار کرنے پر تل گئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ محمدؐ ہم سے قیصر و کسریٰ کے خزانوں کا وعدہ کر رہے تھے اور آج ہماری بے کسی اور مجبوری کی یہ حالت ہے کہ ہم اپنی جان کے خوف سے بیت الخلاء تک جانے کی سکت نہیں رکھتے۔
پھر ان کی ٹولیاں یکے بعد دیگر نبی کریمؐ کا ساتھ چھوڑ کر کھسکنے لگیں۔ بہانہ یہ تھا کہ بنو قریظہ کی طرف سے اس بات کا ڈر ہے کہ جب لڑائی شروع ہو جائے گی تو وہ اچانک ہماری عورتوں، بچوں اور گھروں پر حملہ کر دیں گے، یہاں تک کہ چند سو مخلص صحابہؓ کے سوا رسول اکرمؐ کے ساتھ کوئی نہیں بچا۔
محاصرے کی راتوں میں سے ایک رات کو جس کا سلسلہ تقریباً بیس دن سے جاری تھا، رسول اکرمؐ اپنے رب کی بارگاہ میں انتہائی گریہ وزاری کے ساتھ بار بار یہ دعا کر رہے تھے۔
’’خدایا! میں تجھے تیرا عہد اور تیرا وعدہ یاد دلا رہا ہوں … خدایا! میں تجھے تیر عہد اور تیرا وعدہ یاد دلا رہا ہوں۔‘‘
اس رات نعیم بن مسعود بے خوابی کی وجہ سے اپنے بستر پر کروٹیں بدل رہے تھے۔ نیند ان آنکھوں سے کوسوں دور تھی، ان کی پلکیں جھپکنے کا نام نہیں لیتی تھیں، جیسے ان میں کیلیں جڑ دی گئیں ہوں، وہ آنکھیں کھولے صاف ستھرے آسمان کی سطح پر تیرتے ہوئے ستاروں کو دیکھے چلے جا رہے تھے، وہ بڑی دیر تک بحر تفکر میں غوطہ زن رہے، اچانک انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا دل ان سے سوال کر رہا ہے۔
’’نعیم! تمہارا برا ہو، آخر وہ کون سی چیز ہے جو تم کو اس ’’مرد صالح‘‘ (نبی کریمؐ) کے مقابلے میں اپنی تلوار بے نیام کرنے پر اکسا رہی ہے، جو اپنے متبعین کو عدل و احسان اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے؟ اور کیا چیز ہے، جو تم کو اس بات پر اکسا رہی ہے کہ اپنا نیزہ اس کے ان ساتھیوں کے خون سے رنگین کرو، جنہوں نے اس کی لائی ہوئی ہدایت اور حق کی پیروی اختیار کی ہے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment