امت رپورٹ
پاکستان کی طرف سے پائلٹ چھوڑنے کے یکطرفہ اعلان پر بھارت کی گردن میں دوبارہ سریا آگیا ہے۔ متعصب بھارتی سیاسی و عسکری تجزیہ نگار اور میڈیا پاکستانی وزیر اعظم کے Peace Gesture کا شکرگزار ہونے کے بجائے اسے بھارت کی سفارتی کامیابی قرار دے رہا ہے۔ دوسری جانب انڈین ایئر فورس نے بھی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اقدام کو خیر سگالی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ تاہم جمعرات کی شام اس رپورٹ کے فائل کرنے تک ابھی نندن کی رہائی کے اعلان پر بھارتی حکومت کا سرکاری ردعمل نہیں آیا تھا۔
اسلام آباد میں موجود سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دو ایٹمی ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کی خاطر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس سے بین الاقوامی طور پر یہ پیغام بھی گیا ہے کہ پاکستان کشیدگی کم کرنے کے لئے سنجیدہ ہے اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کر رہا ہے۔ اور اب بھارت کی باری ہے کہ وہ اس کا مثبت جواب دے۔ بھارتی میڈیا اور تجزیہ کاروں کی جانب سے پاکستانی اقدام کو کمزوری قرار دینے کے حوالے سے ان سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ اصل اہمیت بھارت کے سرکاری موقف کی ہے۔ اگر بھارتی میڈیا سے ملتا جلتا موقف سرکاری سطح سے آتا تو پھر بات الگ ہوتی۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں پر تنائو کم کرنے کے لئے امریکہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی برادری کا شدید دبائو ہے۔ جبکہ امریکی صدر ٹرمپ کا تازہ بیان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’’شام ہوتے ہوتے بھارت اور پاکستان کے حوالے سے بہت اچھی خبر ملنے والی ہے‘‘۔ اس بیان کے بعد ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان میں گرفتار بھارتی ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی کا اعلان کیا۔ ذرائع کے بقول امن کوششوں کے سلسلے میں عالمی برادری اور دوست ممالک کی جانب سے جو درخواست کی جارہی ہے، اس میں کوئی مخصوص اقدامات کرنے کا نہیں کہا گیا۔ پاکستان نے اپنے طور پر یہ سوچ کر بھارتی پائلٹ کی رہائی کا فیصلہ کیا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کم ہونے میں مدد ملے گی۔ اور یہ کہ اس فیصلے میں باہمی مشاورت شامل ہے۔ اور ذرائع کے بقول اس اقدام کے مثبت اثرات آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بالخصوص کشیدگی کم کرانے کی کوشش کرنے والے دوست ممالک نے اس اعلان کو سراہا ہے اور یقین دلایا ہے کہ وہ بھارت کو بھی اسی جذبہ کا مظاہرہ کرنے کے لئے کہیں گے۔
خیر سگالی کے طور پر بھارتی پائلٹ کو چھوڑنے کے اعلان پر بھارتی میڈیا جہاں اسے پاکستان کی کمزوری ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کی ایک تعداد بھی اس فیصلے پر خوش نہیں۔ ان سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی کے لئے کچھ انتظار کیا جانا چاہئے تھا۔ کیونکہ بھارت کا جنگی جنون ابھی کم نہیں ہوا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ قیام کے وقت سجدہ نہیں کیا جاتا، اور یہ کہ بھارتی پائلٹ کی رہائی سے قبل کم از کم چند شرائط رکھی جانی چاہئے تھیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کے ان جذبات کے برعکس اسلام آباد میں موجود سفارتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام کے مثبت اثرات چند روز میں آنا شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان نے بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان کرکے امن کوششوں کی طرف عملی قدم اٹھانے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جنیوا کنونشن کے تحت ویسے بھی اگر آج نہیں تو کل بھارتی پائلٹ کو چھوڑنا پڑتا۔ لیکن اب پاکستان نے بال بھارت کے کورٹ میں ڈال دی ہے اور دنیا کی نظریں مودی سرکار پر ہیں کہ جواب میں وہ کیا قدم اٹھاتی ہے۔ ادھر بھارت میں بھی بعض ایسی آوازیں ہیں جو اپنے میڈیا کے برعکس ابھی نندن کی رہائی کے اعلان کو پاکستانی سفارتی فتح قرار دے رہی ہیں۔
ان میں بھارت کے صف اول کے عسکری و دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا شامل ہیں۔ اجے شکلا نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ونگ کمانڈر کی رہائی کے اعلان کے بعد وزارت دفاع کو اپنی طے شدہ بریفنگ ملتوی کرنا پڑی۔ اجے شکلا نے رہائی کے اعلان کو وزیر اعظم عمران خان کی Preempted موو قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’پاکستان ہر مرحلے پر تاثراتی جنگ جامع طریقے سے جیت رہا ہے۔ اور یہ کہ پاکستان کی پی آر بھارت سے کہیں آگے ہے‘‘۔
بھارتی صحافی ادیتیہ مینن نے بتایا کہ جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ونگ کمانڈر کو چھوڑنے کا اعلان کر رہے تھے تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم ایک ایوارڈ فنکشن میں شریک تھے۔ جبکہ اس اعلان کے نتیجے میں بھارت کی تینوں مسلح افواج کی پریس کانفرنس ری شیڈول کرنا پڑی۔ کیونکہ اس مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کرنے والی وزارت دفاع کو توقع نہیں تھی کہ پاکستان کی جانب سے ابھی نندن کی رہائی کا اعلان اس قدر جلد کردیا جائے گا۔ پریس کانفرنس میں بھارتی پائلٹ کی رہائی کا معاملہ بھی اٹھایا جانا تھا۔ بھارتی صحافی ادیتیہ مینن کے بقول اگرچہ متعدد بھارتی چینلز انڈین پائلٹ کی رہائی کے اعلان کو مودی کی سفارتی فتح قرار دے رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان نے یہ فیصلہ بھارتی دبائو پر کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے یہ قدم اٹھاکر نظریاتی جنگ جیت لی ہے۔ نئی دہلی میں موجود دیگر سفارتی ذرائع نے بتایا کہ بھارت کی تینوں مسلح افواج کی مشترکہ پریس کانفرنس جمعرات کی شام پانچ بجے طے تھی۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان کے اعلان کے بعد اس کا ٹائم سات بجے رکھ دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بھارتی پائلٹ کی رہائی کے اعلان کے بعد تبدیل ہونے والی صورتحال پر وزارت دفاع نے ہنگامی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر سیاسی قیادت سے رابطہ کیا، جس کے بعد پریس کانفرنس کے متن میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں۔ اس پریس کانفرنس کا مقصد بھارتی عوام بالخصوص بی جے پی کے انتہا پسند ووٹرز کو مطمئن کرنا تھا، جو پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی کے دعووں کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔ تاہم تینوں مسلح بھارتی افواج کے ذمہ داران نہ صرف اپنے دعووں کا ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے، بلکہ صحافیوں کے چبھتے سوالات پر ان کے پسینے چھوٹ گئے۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی آرمی کے میجر جنرل سریندر سنگھ، نیوی کے ریئر ایڈمرل دلبیر سنگھ گجرال اور ایئرفورس کے ایئر وائس مارشل آر جی کپور موجود تھے۔ سب سے پہلے ایئر وائس مارشل کپور نے 27 فروری 2019ء کو پاکستان کے ساتھ ہونے والے فضائی معرکے کی تفصیلات بیان کیں۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستانی طیاروں نے کنٹرول لائن عبور کرکے بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ تاہم بھارتی طیارے اس میں رکاوٹ بن گئے تو پاکستانی طیارے بھارتی آرمی فارمیشن کمپائونڈ میں بم گرا کر چلے گئے اور وہ بھارتی فوجی تنصیبات کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے سے قاصر رہے۔ واضح رہے کہ پاکستان یہ بتاچکا ہے کہ پاکستانی طیاروں نے دانستہ بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ کیونکہ وہاں تک پہنچ کر پاکستان اپنی صلاحیت دکھانا چاہتا تھا۔ یعنی پاکستان نے دانستہ بھارتی تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچایا اور نہ کوئی انسانی جان لی۔ بھارتی ایئروائس مارشل یہ اصرار بھی کرتے رہے کہ پاکستان نے فضائی معرکے میں ایف سولہ طیارے استعمال کئے۔ یاد رہے کہ پاکستان اس کی تردید کرچکا ہے۔ ثبوت کے طور پر پریس کانفرنس میں فضا سے فضا میں مار کرنے والے اے آئی ایم میزائل کا ایک ٹکڑا دکھایا اور کہا کہ اس میزائل کو صرف ایف سولہ طیارہ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے یہ میزائل استعمال کیا گیا۔ اس کا ٹکڑا راجوڑی مقبوضہ کشمیر سے ملا ہے۔ ایئر وائس مارشل یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ معرکے میں پاکستانی ایف سولہ طیارہ بھی گرایا گیا، جس کا ملبہ آزاد کشمیر کے علاقے میں گرا۔ پریس کانفرنس کو اٹینڈ کرنے والے کم از کم دو غیر جانبدار بھارتی صحافیوں نے اعتراف کیا کہ مسلح افواج کی مشترکہ پریس کانفرنس سوائے فیس سیونگ کے اور کچھ نہیں تھی، جس کا مقصد عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دینا تھا۔ لیکن تینوں مسلح افواج کے نمائندے اس کوشش میں ناکام رہے اور اپنے دعووں کا کوئی ثبوت فراہم نہ کرسکے۔ بالخصوص سوال و جواب کے سیشن میں مسلح افواج کے نمائندوں کو بے انتہا سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایئر وائس مارشل کے بعد بھارتی آرمی کے میجر جنرل سریندر سنگھ نے مختصر بات کی اور اس دوران بڑھکیں ماریں کہ پاکستان نے بھارت کے خلاف اگر کوئی مہم جوئی کی تو اس کا جواب دینے کے لئے بھارتی آرمی تیار ہے۔ اسی طرح بھارتی نیوی کے ریئر ایڈمرل دلبیر سنگھ گجرال کے پاس بھی کہنے کو زیادہ کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے بھی یہ بڑھک مارکر اپنی بات چیت ختم کی کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نیوی کی طرف سے بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر ایک بھارتی صحافی نے بتایا کہ اپنے دعووں کے حوالے سے مسلح افواج کے تینوں نمائندے ایک بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے، سوائے ایک دھاتی ٹکڑے کے جسے انہوں نے اے آئی ایم میزائل کا ٹکڑا قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ میزائل پاکستانی ایف سولہ نے داغا تھا۔ سوال و جواب کے سیشن میں بالخصوص ایئر وائس مارشل کپور کو اس وقت شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ بھارتی ایئر فورس نے بالا کوٹ میں تین سو سے زائد دہشت گرد مارنے اور جیش محمد کے کئی کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ کیا ایئروائس مارشل ہلاک ہونے والے لوگوں اور تباہ کئے جانے والے کیمپ کی درست تعداد بتا سکتے ہیں؟ اس کا ایئر وائس مارشل آرجی کپور کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ صرف اتنا کہہ سکے ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں اور کتنے کیمپ تباہ ہوئے۔ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہم کیمپ تباہ کرنے کے ارادے سے گئے تھے‘‘۔ اس کے بعد ایک خاتون رپورٹر نے یہ سوال کرکے ایئر وائس مارشل کپور کو مشکل میں ڈال دیا کہ وہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی واپسی کے اعلان کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کیا اس پاکستانی اقدام کو خیر سگالی کی علامت سمجھتے ہیں؟ اس پر ایئروائس مارشل رک رک کر بولے ’’جہاں تک انڈین ایئرفورس کا تعلق ہے تو ہم ونگ کمانڈر کی واپسی کے اعلان پر بہت زیادہ خوش ہیں۔ ہم اس کو واپس آتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب ایک بار ابھی نندن بھارت پہنچ جائے گا تو پھر ہی اس ایشو پر ہم مزید کمنٹس کرسکیں گے‘‘۔ تاہم بھارتی ایئر وائس مارشل سوال کے دوسرے حصے کا جواب گول کرگئے جس میں خاتون رپورٹر نے پوچھا تھا کہ وہ بھارتی پائلٹ کی رہائی کو خیر سگالی کی علامت سمجھتے ہیں یا نہیں؟ جب دوبارہ رپورٹر نے اس سوال پر اصرار کیا تو ایئر وائس مارشل کا کہنا تھا ’’ہم اس اعلان کو صرف جنیوا کنونشن کے مطابق ایک اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں‘‘۔ ایک رپورٹر نے آرمی کے میجر جنرل سریندر سنگھ سے استفسار کیا کہ وزیر اعظم عمران خان امن کی بات کر رہے ہیں ، اس پر کیا کہیں گے؟ میجر جنرل سریندر کا کہنا تھا کہ ’’اس کا جواب بھارتی حکومت دے گی‘‘۔ رپورٹر کا اگلا سوال تھا کہ ’’آپ کا کہنا ہے کہ 14 فروری کے بعد سے کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی بڑھی ہے۔ کیا اس خلاف ورزی میں مزید اضافہ ہوگا یا کوئی کمی آنے کا امکان ہے؟‘‘۔ میجر جنرل سریندر نے یہ کہہ کر سوال نظر انداز کردیا کہ ’’یہ بات آپ پاکستان سے پوچھیں‘‘۔
بھارتی دفاعی تجزیہ نگار اجے شکلا کا کہنا ہے کہ تینوں مسلح افواج کی مشترکہ پریس کانفرنس نے بھارتی ٹی وی پر جاری جنگ کو دفن کر دیا ہے اور اس پریس کانفرنس سے کشیدگی کم کرنے کے دو بڑے سگنل ملے ہیں۔ نمبرایک، بھارتی فوج نے خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی مہم جوئی کی جاتی ہے تو اس کا ہی جواب دیا جائے گا۔ بھارتی تجزیہ نگار کے بقول یہ واضح ہے کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرانے سے متعلق عالمی کوششیں کامیاب ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان اور بعد ازاں تینوں مسلح بھارتی افواج کے نمائندوں کی جانب سے خطے میں امن برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار معنی خیز ہے۔ یہ پریس کانفرنس ایک طرح سے فیس سیونگ تھی کہ اگر حالیہ کشیدگی ختم کرنے کا اعلان کردیا جاتا ہے تو مودی سرکار اپنے عوام کو مطمئن کرسکے کہ پاکستانی کارروائی کے جواب میں بھارتی مسلح افواج بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہیں۔
٭٭٭٭٭