ترک سنت کا نقصان

شیخ الاسلام قاری محمد طیبؒ فرماتے ہیں: مولانا محب الدین صاحبؒ حضرت حاجی امداد اللہؒ کے خلفاء میں سے تھے۔ یہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ کے) کے رہنے والے تھے۔ مولانا شفیع الدین نگینوی صاحبؒ بھی آپؒ کے خلیفہ تھے۔ میں (قاری طیبؒ) نے مولانا شفیع الدینؒ کی زیارت کی ہے۔ پہلی مرتبہ جب حج کو گیا ہوں تو مولانا باحیات تھے، کوہ صفا پر ان کا مکان تھا، بڑی محبت اور شفقت سے ملے اور اپنے حجرے میں مجھے لے گئے، وہاں چائے وغیرہ پلائی، یہ بڑے قوی النسبت لوگوں میں سے تھے اور مولانا محب الدینؒ ان سے بھی زیادہ قوی النسبت تھے اور ساتھ ہی صاحب کشف لوگوں میں سے تھے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کوئی تمام آداب و شرائط کے ساتھ وضو کرے اور اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور ’’لا یحدث فیہ نفسہ‘‘ اس میں خیالات کو سوچ سوچ کر نہ پکائے تو ’’غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ یعنی اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
تو مولانا محب الدین صاحبؒ نے اس حدیث پر عمل کرنے کا ارادہ کیا اور پورے اسباغ کے ساتھ وضو کیا اور ساری شرائط پوری کیں۔ حسن نیت اور اخلاص سے دو رکعت نماز ادا فرمائی، مگر نماز میں آنکھیں بند کر لیں، تاکہ وسوسے نہ آئے پائیں۔ اس طرح سے نماز پڑھی کہ ادھر ادھر خیال نہیں گیا۔ نماز کے بعد ان کو انشراح ہوا کہ ٹھیک حدیث کے مطابق ہماری نماز ہوئی ہے، چونکہ یہ صاحب کشف تھے، اس لیے مراقب ہوئے کہ میں عالم مثال میں اپنی نماز کی صورت دیکھوں کہ قبولیت کے کیا آثار نمایاں ہوئے تو ان کی نماز متمثل ہوئی، ایک حسین اور جمیل عورت کی صورت میں نہایت خوب صورت اور حسین و جمیل، لباس بڑا فاخرہ اور معنبر اور معطر، لیکن آنکھوں سے اندھی، اب یہ حیران ہوئے کہ یہ تو سارا حسن ہی کرکرا ہو گیا، جب آنکھ ہی نہیں ہے تو پھر جمال ہی کیا رہ گیا۔ اس کی وجہ پر غور کرنے لگے، مگر وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔
پھر حضرت حاجی امداد اللہ صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت نے برجستہ فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے، مولانا آپ نے آنکھیں بند کر کے نماز پڑھی ہے، کہا جی حضرت ہم نے ایسا ہی کیا تھا تاکہ وسوسے نہ آئیں تو حضرت حاجی صاحبؒ نے فرمایا کہ آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا یہ سنت کے خلاف ہے، چونکہ آپ کی نماز میں ایک سنت ترک ہو گئی، اس لیے اس کا عیب نماز میں نمایاں ہوا۔ نماز اعلیٰ اور مقبول، لیکن ایک سنت کے ترک پر خرابی پیدا ہو گئی۔ اگر آپ کھلی آنکھوں نماز پڑھتے اور ہزار وسوسے آتے تو اس حدیث کے خلاف ہوتا، کیونکہ حدیث میں ہے کہ
’’لا یحدث فیہ نفسہ‘‘ مطلب یہ ہے کہ وساوس اپنے ارادے سے نہ لائو اور آپ کے خیال بے ارادے تھے، اس لیے اگر ہزار وسوسے آتے تو حدیث شریف کے خلاف نہ ہوتا اور نہ نماز میں کوئی فرق پڑتا، مگر آپ نے سنت چھوڑ دی، جس کی وجہ سے وہ عیب نمایاں ہوا۔ اتنا بیان کرنے کے بعد حکیم الاسلام پر ایک جذب کی کیفیت پیدا ہو گئی، پر آپ نے فرمایا کہ خدایا! ہماری نماز میں تو واجبات بھی ترک ہو جاتے ہیں تو ہماری نماز کی شکل کیا ہو گی۔ جب ایک سنت کے ترک پر اتنا بڑا عیب پیدا ہو گیا تو جہاں مستحبات اور سنت بلکہ واجبات ندارد ہیں تو اس نماز کی شکل کیا ہو گی؟ (مجالس حکیم الاسلام جلد اول)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment