شیخ ابووداعہؒ اور سیدنا سعید بن مسیبؒ سے متعلق مذکورہ واقعہ سن کر عبد المالک بن مروان کے بیٹے نے کہا: ’’یہ شخص بھی عجیب ہے (اس نے شاہی خاندان کو ٹھکرا دیا)۔‘‘
اہل مدینہ میں سے ایک شخص نے کہا: شہزادہ صاحب اس میں کون سی تعجب کی بات ہے؟ یہ شخصیت حضرت سعید بن مسیبؒ کی ہے، جنہوں نے اپنی دنیا کو آخرت کے لئے سواری بنا رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے اور خاندان کے لئے باقی رہنے والی چیز کو فنا ہونے والی چیز کے بدلے خرید لیا ہے۔
خدا کی قسم! انہوں نے امیر المؤمنین کے بیٹے کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے میں بخل نہیں کیا اور نہ ہی یہ وجہ تھی کہ وہ شہزادہ کو اچھا نہیں سمجھتے، بلکہ صرف انہیںاپنی بیٹی کے بارے میں دنیا کے فتنے میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا۔
حضرت سعید بن مسیبؒ کے بعض دوستوں نے ان سے تعجب سے پوچھا:
کیا آپ امیر المؤمنین کو جواب دے کر، اپنی بیٹی کا رشتہ ایک عام مسلمان کے ساتھ کر رہے ہیں؟
انہوں نے فرمایا: میری بیٹی میرے پاس امانت ہے، میں اس کے حق میں ہمیشہ بہتر سوچتا ہوں۔ پوچھا: وہ کیسے؟
فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے، اگر میری بیٹی بنو امیہ کے محلات میں منتقل ہوجائے، شاہی لباس پہنے لگے، قیمتی سازو سامان استعمال کرے، خدمت گزاری کے لئے کنیزیں اور خادمات ہر وقت اس کے سامنے اور دائیں بائیں ہاتھ باندھ کر کھڑی رہیں، پھر وہ اپنے آپ کو رانی، خلیفہ کی بیوی اور اپنے کو سب عورتوں سے بہتر تصور کرنے لگے، مجھے بتائیے اس قدر غرور کے بعد اس کے دین کا کیا بنے گا؟
اہل شام میں سے ایک شخص نے کہا:
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعید بن مسیبؒ ایک عالم، زاہد اور دنیا سے بالکل بے نیاز شخص تھے۔
مدینہ کے ایک باسی نے ان کی تائید کرتے ہوئے کہا:
حضرت سعید بن مسیّبؒ کبھی حق سے الگ نہ ہوئے، وہ اکثر اوقات دن کو روزہ رکھتے اور رات کو عبادت میں مصروف رہتے تھے۔
آپ نے زندگی میں چالیس حج کئے اور مسلسل چالیس برس تک مسجد نبوی میں باجماعت نماز ادا کی۔ ہمیشہ پہلی
صف اور تکبیرِ اولیٰ میں شامل ہوئے۔ اس طرح نماز میں ان کو کسی کی گردن پیٹھ نظر نہ آتی تھی، یعنی ہمیشہ پہلی صف میں ہوتے تھے۔
انہیں ایسے مواقع بھی ملے تھے کہ قریش کی جس خاتون سے بھی چاہیں شادی کرلیں، لیکن انہوں نے حضرت ابوہریرہؓ کی بیٹی کو اپنی بیوی بنانے کے لیے تمام قریشی خواتین پر ترجیح دی اور انہیں اپنی بیوی منتخب کیا۔ اس لیے کہ ان کے والد کے رسول اقدسؐ کے ساتھ گہرے تعلقات تھے، احادیث رسولؐ کے سب سے بڑے راوی، احادیث رسولؐ کے سچے عاشق اور شوق رکھنے والے تھے، ان کے نزدیک یہ وجہ ترجیح تھی۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ اپنی کتاب ’’دو شہید، حضرت سعید بن مسیّبؒ اور حضرت سعید بن جبیرؒ‘‘ میں حضرت سعید بن مسیّبؒ کے بارے میں لکھتے ہیں: (جاری ہے)
٭٭٭٭٭