سوال: آپ کے نزدیک اس کا سبب کیا ہے کہ امریکہ میں جو لوگ اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں، ان کی غالب اکثریت اسلام کی آغوش میں آتی ہے؟
جواب: میرا یقین ہے کہ جو بے شمار لوگ اسلام کی طرف لپکتے چلے آرہے ہیں، انہیں اس امر کا احساس ہوگیا ہے کہ موجودہ مغربی طرز زندگی نہ تو اخلاقی قدروں کی پرورش کرتی ہے نہ یہ کسی باوقار اور صاف ستھرے اسلوب حیات کو پروان چڑھاتی ہے، جبکہ اس کے برعکس وہ اسلام کی صورت میں ایسی صداقت سے بہرہ ور ہوتے ہیں، جو انہیں بلند ترین اخلاقی معیارات عطا کرتی ہے اور ان معیارات کو حاصل کرنے کی دعوت دیتی ہے جو حقیقت پسندی پر مبنی ہے، فطری ہے اور باوقار بھی۔ خاص اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اسلام مغرب کی تنگ نظری سے بہت بلند وبالا ہے اور انسان کو مادیت اور نسل پرستی سے ہٹا کر خالص انسانی شرف کی بنا پر مخاطب کرتا ہے۔
سوال: امریکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی اکثریت سیاہ فاموں پر مشتمل ہے، آپ کے خیال میں یہ مبارک پیغام سفید فاموں تک رسائی حاصل کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکا؟
جواب: اس معاملے میں، میں کوئی ماہرانہ رائے تو نہیں دے سکتی، تاہم میرا ایک نقطہ نظر ہے اور وہ یہ کہ جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں، وہ بالعموم موجودہ نظام کے ستم رسیدہ ہوتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ میں بے چارے سیاہ فام بڑے ہی مظلوم ہیں اور جب وہ دائرئہ اسلام میں آتے ہیں تو انہیں حقارت اور ظلم و جور کے بجائے محبت، مساوات اور احترام ملتا ہے تو ان کی پریشان اور افسردہ روحوں کو قرار مل جاتا ہے۔
سیاہ فاموں کے اسلام کی طرف لپکنے کا ایک سبب اور بھی ہے، وہ جان گئے ہیں کہ افریقہ میں ان کے آباء واجداد کا مذہب اسلام تھا اور جب انہیں زبردستی اغواء کر کے امریکہ لایا گیا تو ان سے یہ نعمت چھین لی گئی۔ چنانچہ اسلام قبول کر کے دراصل وہ اپنے اصل دین کے طرف لوٹتے ہیں۔
سوال: امریکہ کے اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ یہ واویلا کرتے نہیں تھکتے کہ اسلام کا رویہ عورت کے معاملے میں غیر مناسب ہے۔ آپ ایک تعلیم یافتہ سفید فام خاتون ہیں، اس کے بارے میں آپ کا تاثر کیا ہے؟
جواب: اس سوال کا جواب اتنے تھوڑے وقت میں نہیں دیا جاسکتا، یہ موضوع تو ایک کتاب کا متقاضی ہے، مختصراً کہوں گی کہ یہ بات حقیقت کے برعکس ہے اور یہ الزام عموماً ان لوگوں کی طرف سے دہرایا جاتا ہے جو اسلامی تعلیمات سے یکسر بے خبر ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ جب اسلامی معاشرت میں مرد اور عورت کا میدان کار الگ الگ ہے تو لازماً عورت ظلم کا شکار ہوتی ہے، حالانکہ معاملہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
اس کے برعکس… میں اپنے ملک کی صورت حال پیش کرتی ہوں، یہاں برابری اور مساوات کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت وہ سب کچھ کرے جو مرد کرتا ہے۔ لیکن عملاً ہوتا یہ ہے کہ عورت مرد کی طرح کماتی بھی ہے اور گھر کا بھی سارا کام کرتی ہے، جہاں مرد اس کے ساتھ شراکت نہیں کرتا، پھر ظاہر ہے مساوات کہاں رہی؟ اور جن گھرانوں میں ماں اور باپ دونوں کام کرتے ہیں وہاں بچوں کا جو حال ہوتا ہے وہ ظلم اور استحصال کی ایک افسوسناک مثال ہے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یورپ کے ذرائع ابلاغ اور اخبارات عام طور پر عالم اسلام کی حکومتوں کے طرز عمل اور مختلف افراد کی ذاتی رویے سے سمجھ لیتے ہیں کہ یہی کچھ اسلام کی تعلیم ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے، چنانچہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر ان کی صحیح روح کے ساتھ عمل کریں اور غیر مسلموں کے سامنے اسلام کے سچے ترجمان بنیں۔
سوال: امریکہ میں جو غیر مسلم خواتین اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں ان کے نام آپ کا پیغام کیا ہے؟
جواب: ان بہنوں کے لئے میر امشورہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کریں اور خوب توجہ سے غور وفکر کریں، میں اسی راستے سے اسلام کی منزل مقصود پر پہنچی ہوں۔ دوسری بات یہ کہ خوف زدہ ہرگز نہ ہوں، اگر آپ نے صراط مستقیم تک پہنچنے کا ارادہ کر لیا تو خدا اپنے فضل سے آپ کی مدد فرمائے گا۔
سوال: آپ میری لائق شاگرد ہیں، میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں آپ اپنی صلاحیتوں کو خدمت دین کیلئے کس طرح کام میں لائیں گی؟
جواب: میرا ارادہ ہے کہ میں کسی اسلامک اسکول میں ٹیچر بن جاؤں، اپنے شاگردوں تک اسلام کی سچی تعلیم منتقل کروں اور دوسرے لوگوں تک بھی اسلام کا سچا پیغام پہنچاؤں، مجھے امید ہے کہ میرے رب نے چاہا تو میں اپنے اس ادارے میں کامیاب ہو جاؤں گی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭