حضرت جنید بغدادیؒ کبھی تناہ سفر کرتے تھے اور کبھی اربابِ ذوق کے ساتھ۔ ایک بار آپؒ بہت سے مشائخ اور خدام کے ہمراہ جا رہے تھے۔ راستے میں جبل سینا (کوہ طور ) پر سے آپ کا گزر ہوا۔ وہاں عیسائی راہبوں کی ایک خانقاہ تھی جس کے نیچے ایک چشمہ جاری تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے رفقاء کے ساتھ اسی چشمے کے کنارے قیام فرمایا۔
اس سفر میں ایک قوال بھی آپؒ کے ہمراہ تھا۔ کچھ دیر بعد مجلس سماع گرم ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام صوفیا اور مشائخ بے خود ہو گئے اور بے تابانہ رقص کرنے لگے۔ سماع کے دوران حضرت جنید بغدادیؒ پر بھی وجد کی انتہائی کیفیت طاری ہو جاتی تھی مگر آپؒ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتے تھے۔ راہب اور ان کا پیشوا بڑی حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ آخر وہ خانقاہ سے نکل کر نیچے آیا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے تمام ساتھی حالتِ جذب میں تھے۔ راہبوں کے پیشوا نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
’’تمہیں تمہارے خدا کی قسم! میری بات سنو! تم لوگ یہ کیا شغل کر رہے ہو؟‘‘
راہبوں کا پیشوا حضرت جنید بغدادیؒ کے ایک ایک ساتھی کو پکڑ کے یہ الفاظ دہراتا مگر وہ مست و بے خود لوگ ذرا بھی اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
آخر بہت دیر بعد جب محفل سماع ختم ہوئی اور تمام بزرگ اپنی اپنی نشستوں پر قرینے کے ساتھ بیٹھ گئے تو راہبوں کے پیشوا نے مشائخ سے پوچھا۔
’’میں آپ حضرات کو بار بار اپنی طرف بلاتا تھا مگر آپ لوگ میری بات سنتے ہی نہیں تھے۔‘‘
’’تمہارا ہمیں اس حالت میں پکارنا ایک اورکار بے سود تھا۔‘‘ ایک بزرگ نے راہبوں کے پیشوا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
راہب نے مسلمان بزرگ کی بات بڑی حیرت سے سنی۔ ’’مگر اب تو تم لوگ میری بات سن رہے ہو۔ اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گئی تھی؟‘‘
’’ہم نہیں بتا سکتے کہ سماع کے وقت ہماری کیا کیفیت ہوتی ہے؟‘‘
راہبوں کے پیشوا کو بڑی حیرت تھی کہ آخر انسان پر جذب کی یہ کیفیت کس طرح طاری ہوتی ہے؟ پھر اس نے حضرت جنید بغدادیؒ کے ساتھیوں سے پوچھا ’’تمہارا شیخ کون ہے؟‘‘
تمام لوگوں نے حضرت جنید بغدادیؒ کی طرف اشارہ کردیا۔راہبوں کا پیشوا اپنی جگہ سے اٹھا اور حضرت جنید بغدادیؒ کے قریب پہنچ کر کہنے لگا:
’’شیخ! میں نے کچھ دیر پہلے آپ لوگوں کو ایک عجیب کھیل میں مشغول پایا۔ آپ کے تمام ساتھی اس طرح مست و بے خود تھے کہ انہیں اپنے گردو پیش کی بھی خبر نہیں تھی۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا’’ جسے تم کھیل سمجھ رہے ہو یہ دنیا داروں کانہیں، اہل دل کا مشغلہ ہے۔ جب ہم لوگ یہ شغل کرتے ہیں تو پھر اپنے ہوش میں نہیں رہتے۔‘‘
’’ کیا تم لوگوں کو اس کھیل میں کوئی خاص لذت حاصل ہوتی ہے؟ ‘‘ راہبوں کے پیشوا نے استعجابیہ انداز میں پوچھا۔
’’تم اس لذت کو نہیں سمجھوگے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔’’ کیا تم نے ایسی کوئی لذت دیکھی ہے کہ جسے پاکر انسان دیگر تمام لذتوں کو فراموش کردے، یہ ہمارا روحانی کھیل ہے جسے سماع کہتے ہیں۔‘‘
’’ کیا سماع دوسرے مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے؟‘‘ راہبوں کے پیشوا نے ایک اور سوال کیا۔
’’ نہیں، سماع صرف ہمارے ساتھ ہی مخصوص ہے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔’’ مگر ہمارے نزدیک سماع کی ایک شرط ہے کہ اس عمل سے شریعت کے کاموں میں کوئی خلل نہ پڑے اور انسان کا زہد وتقویٰ متاثر نہ ہو۔‘‘
’’میں اور میرے ساتھی بھی برسوں سے سخت ترین ریاضتیں کررہے ہیں، مگر ہم لوگوں کو یہ کیفیت کبھی حاصل نہیں ہوئی۔‘‘ عیسائی پیشوا نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارے دل اور دماغ شب و روز ایک عجیب سے اضطراب میں مبتلا رہتے ہیں، آج تم لوگوں کو دیکھا تو اپنی محرومیوں کا احساس ہوا۔‘‘
یہ کہہ کر عیسائی پیشوا حضرت جنید بغدادیؒ کے دست حق پر ایمان لے آیا، پھر اس کے دوسرے ساتھی راہب بھی حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ یہ آپؒ کی ایک کرامت تھی کہ جسے دیکھتے ہی راہبوں نے اپنا آبائی مذہب بدل ڈالا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭