سرفروش

عباس ثاقب
اس بات پر سکھبیر نے مٹھو سنگھ کو ایک بھاری بھرکم گالی دی اور میری پیٹھ تھپتھپا کر منندر ککڑ کو کہا۔ ’’میرے اس بھائی نے مٹھو سنگھ کی ناپاک چھاتی چھلنی کر کے واقعی ہماری قوم کے ایک غدار سے پنجاب کی دھرتی کو چھٹکارا دلایا ہے۔ دل خوش ہوگیا تھا اس کا ستھرا نشانہ دیکھ کر۔ لگتا ہے پچھلے جنم میں یہ بھی کوئی سنگھ تھا‘‘۔
اس کی بات پر میں بے دلی سے مسکرا کر رہ گیا۔ منندر ککڑ شاید کافی فرصت میں تھا۔ وہ انگریز فوج کے ساتھ مل کر افغانیوں کے ساتھ لڑے ہوئے معرکوں کے قصے دہراتا رہا اور صوبہ سرحد اور آزادی قبائلی علاقوں میں گزارے دن یاد کرتا رہا۔ وہ پشاور کا ذکر خصوصاً بہت محبت اور اشتیاق کے ساتھ کرتا رہا۔
منندر سنگھ نے بتایا۔ ’’یار مجھے تو بالکل معلوم نہیں تھا کہ ان علاقوں میں بھی ہماری قوم کے افراد آباد ہیں۔ پشاور کے سرداروں سے ملاقات کر کے بہت خوشی ہوئی۔ جیسے ہی محاذ پر سے چھٹی ملتی، میں ان سے ملنے چلا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ قصہ خوانی بازار میں دنبے کے گوشت کے جتنے تکے کباب میں نے ان دو ڈھائی برسوں میں کھائے۔ کسی اور سردار نے ساری زندگی میں نہیں کھائے ہوں گے۔ ہمارے سکھ بھائی ہی نہیں، درجنوں مسلمانوں سے بھی پکی یاری ہوگئی تھی۔ بڑے ہی مہمان نواز لوگ ہیں سرحد والے‘‘۔
یہ سن کر میں نے ہوا میں تیر چلایا۔ ’’میرا خیال ہے وہاں سے ہتھیار خریدنے کا معاملہ بھی آپ کے وہاں قیام ہی سے جُڑا ہوا ہے!‘‘۔
میری بات سن کر منندر ککڑ نے قہقہہ لگایا۔ ’’تم بہت چالاک ہو کاکے۔ بات کی جڑ میں پہنچنے میں بالکل دیر نہیں لگاتے۔ تم ٹھیک سمجھے ہو۔ میرے دوستوں نے درہ آدم خیل کی سیر کرائی تھی۔ وہیں میں نے کئی ہتھیار بنانے والوں اور بیوپاریوں سے دوستی گانٹھ لی تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اچھی قیمت پر ہر ہتھیار کی نقل بنا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ افغانستان میں اپنے واقف بیوپاریوں سے ہر قسم کے ہلکے بھاری روسی ہتھیار بھی منگواسکتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’لیکن وہ ہتھیار یہاں پہنچیں گے کیسے؟‘‘۔
میری بات سن کر اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’مجھے پتا ہے تم انجان بننے کا ناٹک کر رہے ہو۔ بھائی بھائی فلم کا وہ گانا نہیں سنا تم نے؟ میرا نام عبدالرحمان۔ پستہ والا میں ہوں پٹھان! تو بھائی جب پشاور اور کابل سے منوں کے حساب سے ڈرائی فروٹ اور قالین بلا روک ٹوک یہاں آ سکتے ہیں تو ہتھیار آنا کیا مسئلہ ہے؟ بس مال کھلانا پڑتا ہے‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’کیا آپ وہاں سے ہتھیاروں کی کوئی کھیپ منگوا چکے ہیں؟‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’ہاں۔ لیکن ابھی تک صرف ہلکے ہتھیار منگوائے ہیں۔ بڑے ہتھیاروں اور دستی بم وغیرہ منگوانے کے لیے بھی میں سارے معاملات طے کر چکا ہوں۔ بس نوٹ بھیجنے کی دیر ہے۔ ہماری پسند کے ہتھیار یہاں پہنچ جائیں گے۔ وہ لوگ بہت پکا کام کرتے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’پچاس کیلیبر کی مشین گن کی قیمت کیا ہوگی؟‘‘۔
منندر ککڑ نے کہا۔ ’’روس کی بنی ڈی ایس ایچ کے بھاری مشین گن کے تو وہ بائیس ہزار ہندوستانی روپے مانگتے ہیں۔ گوروں کی ایم ٹو براؤننگ مشین گن اس سے بھی زیادہ مہنگی ہے۔ پچیس ہزار روپے سے کم میں نہیں ملتی‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’ان کی مار کتنی ہے؟ اور کیا انہیں ایک بندہ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتا ہے؟‘‘۔
منندر ککڑ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’ایم ٹو براؤننگ تو میں استعمال کر چکا ہوں۔ ایک ڈیڑھ میل تک تو پکی مارکرتی ہے۔ ایک منٹ میں سات سو آٹھ سو راؤنڈ چلا سکتی ہے۔ سنا ہے روسی مشین گن کی مار اس سے بھی زیادہ ہے۔ پونے دو میل تو ضرور رہی ہوگی۔ وہ ایک منٹ میں پچاس راؤنڈ والے بارہ پٹے کھالی (خالی) کر دیتی ہے‘‘۔
میں کہا۔ ’’یعنی چھ سو راؤنڈ فی منٹ! آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ ان دونوں کا وزن کتنا ہے؟‘‘۔
اس نے ایک بار پھر ذہن پر زور ڈالا۔ ’’میرا خیال ہے ایم ٹو براؤننگ تو ایک من کے قریب بھاری ہوتی ہے۔ پوڈ اسٹینڈ کے ساتھ ڈیڑھ من لگالو۔ روسی مشین گن وزن میں تو شاید اس سے ہلکی ہے۔ لیکن وہ پہیے والے اسٹینڈ کے ساتھ کئی من وزن کی ہوجاتی ہوگی‘‘۔
میں نے اس کی فراہم کردہ معلومات کو ذہن میں تولتے ہوئے کہا۔ ’’منندر بھائی یہ بھاری مشین گنیں پہاڑوں پر لے کر چلنا تو بہت مشکل ہوگا۔ اور بہت زیادہ مہنگی بھی ہیں۔ کوئی اور ہلکی اور کم قیمت۔ لیکن کارآمد مشین گن نہیں مل سکتی؟‘‘۔
میری بات سن کر بزرگ سردار کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر جوش بھرے لہجے میں بولا۔ ’’یار ان دونوں کو چھوڑو۔ تم لوگوں کے لیے روس کی آر پی ڈی لائٹ مشین گن بہترین رہے گی۔ سائز میں پکی رائفل سے تھوڑی ہی بڑی ہے۔ آٹھ سیر کے قریب وزن ہے اس کا۔ کوئی بھی جوان بندہ آرام سے اٹھا کر لمبے فاصلے تک چل سکتا ہے۔ ایک منٹ میں چھ سات سو راؤنڈ تو وہ بھی فائر کر دیتی ہے۔ گول ڈرم والا سو گولیوں کا میگزین لگتا ہے اس میں‘‘۔
میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ ’’اور مارکتنی ہے اس کی؟ ہمیں پہاڑیوں پر سے وادی میں موجود دشمن کو نشانہ بنانا ہوتا ہے؟‘‘۔
منندر ککڑ نے پرجوش لہجے میں کہا۔ ’’او میرے کاکے۔ تم فکر نہ کرو۔ پونا میل تو سیدھا مار کرتی ہے۔ پہاڑی سے نیچے کی طرف ایک میل لگالو۔ بہت فاصلہ ہوتا ہے یار۔ ویسے بھی اس سے نشانہ لگانا بھاری مشین گن کے مقابلے میں آسان ہوتا ہے‘‘۔
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’’اور یہ کتنے میں مل جائے گی؟‘‘۔
اس نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’میرا خیال ہے چار ہزار تو مانگیں گے۔ ہاں گولیاں بہت سستی مل جائیں گی۔ کیونکہ اس میں پکی رائفل والی گولی ہی چلتی ہے۔ اب میں اپنے لڑکوں کے لیے بھی یہی خریدنے کی سوچ رہا ہوں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment