امام ابن تیمیہؒ آسیب زدہ کے علاج کے وقت اس کے کان میں اکثر یہ آیت پڑھا کرتے تھے:
ترجمہ: ’’کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بے کار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جائو گے۔‘‘ (سورۃ المومنون، آیت 115)
ایک مرتبہ شیخؒ نے بیان کیا کہ انہوں نے مصروع (آسیب زدہ) کے کان میں یہ آیت پڑھی تو روح (جن) نے کہا: ’’ہاں‘‘ اور اپنی آواز زور دیکر بلند کی۔ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے اس کیلئے چھڑی اٹھائی اور اس سے اس کی گردن کی رگوں پر ضرب لگائی، یہاں تک کہ مارتے مارتے میرے ہاتھ اکڑ گئے اور دیکھنے والوں کو یہ شک ہونے لگا کہ کہیں اس مار پیٹ سے وہ مریض مر نہ جائے۔ مارنے کے دوران اس جنیہ نے کہا: میں اسے محبت کرتی ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ تو تجھ سے محبت نہیں کرتا۔ اس نے کہا: میں اس کے ساتھ حج کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ لیکن وہ تیرے ساتھ حج کرنا نہیں چاہتا۔ اس نے پھر کہا: میں آپ کی کرامت کی وجہ سے اسے چھوڑتی ہوں۔ کہتے ہیں: میں نے جواب دیا کہ نہیں، بلکہ خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں اسے چھوڑ۔
اس نے کہا: میں اس سے باہر نکلتی ہوں۔ پھر وہ مصروع اٹھ کر بیٹھ گیا اور دائیں بائیں جانب دیکھنے لگا۔ پھر اس نے پوچھا کہ مجھے کیا ہوا تھا کہ شیخ کو بلایا گیا ہے؟ لوگوں نے اسے جواب دیا اور سوال کیا کہ یہ تمام چوٹیں کیسی ہیں؟ اس نے جواب دیا: میں نے تو کوئی گناہ نہیں کیا تھا، پھر شیخ نے مجھے کس وجہ سے مارا ہے؟ اور اسے محسوس بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے کوئی چوٹ پڑی ہے۔
شیخؒ آیت الکرسی سے بھی علاج فرمایا کرتے تھے۔ آپ مصروع اور جو اس کا علاج کرے، ان دونوں کو بکثرت اس کی قرأت کا حکم دیتے تھے اور اس کے ساتھ معوذتین کی قرأت کا بھی حکم فرمایا کرتے تھے‘‘۔
(الطب النبوی، ص 29-27)
٭٭٭٭٭