عباس ثاقب
میں نے کہا۔ ’’میرا خیال ہے یہی مناسب رہے گی۔ آپ ہمارے لیے کم از کم پانچ لائٹ مشین گنوں اور کم از کم پانچ ہزار راؤنڈز کا بندوبست کروادیں۔ وہ بھی جلدی سے جلدی‘‘۔
اس نے ہاں میں گردن ہلائی۔ ’’تم فکر نہ کرو۔ میں کابل پیغام بھجوادیتا ہوں۔ واہگرو نے چاہا تو دو تین ہفتوںکے اندر یہاں پہنچ جائیں گی۔ لیکن تم پہلے روپیوں کا بندوبست کرو۔ کیونکہ وہ لوگ مال کی قیمت پر کسی دوستی کا خیال نہیں کرتے۔ نوٹ ہاتھ میں آنے کے بعد ہی مال حوالے کرتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’فکر نہ کریں۔ مال پہنچنے پر آپ جتنی رقم کہیں گے، میں خود آپ کے حوالے کر دوں گا‘‘۔
منندر ککڑ نے اثبات میں گردن کو جنبش دی۔ مزید کچھ دیر گفتگو کے بعد وہ سکھبیر سمیت وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اب مجھے ایک بار پھر کسی مصروفیت کے بغیر وقت گزارنے کا مرحلہ درپیش تھا۔
شام ہونے پر بیزار ہوکر کمرے سے نکلا تو عمارت خالی دکھائی دی۔ البتہ چھت پر عجیب و غریب آوازیں آرہی تھیں۔ تجسس سے مجبور ہوکر میں سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر جا پہنچا۔ جہاں ایک انوکھا منظر میرا منتظر تھا۔ مہتاب اور شیر دل سنگھ اپنے آٹھ نو ساتھیوں کے ساتھ مل کر کئی طرح کے تیز دھار ہتھیار چلانے کی مشق کر رہے تھے۔ میں پہلے بھی نہنگ سکھوں کو اس طرح ہتھیاروں کے ساتھ کرتب دکھاتے دیکھ چکا تھا۔ لیکن یہ سب بھی ان عجیب و غریب ہتھیاروں کو چلانے میں اچھی خاصی مہارت رکھتے تھے۔
مجھے دیکھ کر شیر دل سنگھ مشق چھوڑ کر آگیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں چمڑے کی ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں سنہری قبضے والی نیم خمیدہ تلوار تھی۔ وہ مجھے ساتھ لے کر ایک طرف رکھے اضافی ہتھیاروں کی طرف آگیا۔ ان میں کچھ میرے لیے بالکل نئے تھے۔ مثلاً انگریزی حرف 4 کی شکل سے مشابہ دو طرفہ نوک والا ایک دھاتی ہتھیار۔ دونوں طرف خنجروں اور سامنے کی طرف ایک نوک دار میخ والا دستہ نما ہتھیار۔ نیزے کی انی نما دستی ہتھیار۔ ترشول اور تیز دھار دھاتی گھیرا میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ البتہ مجھے دھاتی سینہ پوش وہاں نظر نہیں آیا۔
شیر دل سنگھ نے میری دلچسپی محسوس کرتے ہوئے بتایا کہ کئی طرح کے مزید روایتی ہتھیار ایسے ہیں جو صرف نہنگ سکھ استعمال کرتے ہیں۔ اس دوران میں مہتاب سنگھ بھی ہمارے پاس آگیا۔
میں نے ان سے پوچھا۔ ’’ان ہتھیاروں کی مشق کے لیے تو یہ جگہ ٹھیک ہے۔ رائفل اور پستول چلانے اور نشانہ بازی کی مشق تم لوگ کہاں کرتے ہو؟‘‘۔
مہتاب سنگھ نے کہا۔ ’’ہمیں سب طرح کے ہتھیار چلانا تو اچھی طرح سکھایا جاتا ہے۔ لیکن گولی چلانے کے لیے جنگلوں میں جانا پڑتا ہے۔ اس لیے نشانہ بازی کی مشق کا ہمیں زیادہ موقع نہیں ملتا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار نشانہ لگانے کی اچھی مشق نہ ہو تو یہ ہتھیار خود چلانے والے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ میں سکھبیر سے بات کروں گا کہ نشانہ بازی کی مشق کے لیے تم لوگوں کو کشمیر بھجوانے کا بندوبست کرے۔ وہاں تم نشانہ لگانے کی دل کھول کر مشق کرنا۔ کوئی روک ٹوک نہیں کرے گا‘‘۔
شیر دل سنگھ نے کہا۔ ’’ ہم میں سے چھوٹے ہتھیار اور شاٹ گن سے نشانہ لگانے میں مہتاب سب سے اچھا ہے۔ لیکن رائفل سے نشانہ لگانے میں اسے بھی مشق چاہیے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تین چار دن میں تم دونوں بالکل طاق ہو جاؤ گے۔ وہاں ہمارے پاس اسٹین گنیں بھی ہیں۔ شاید تمہیں انہیں استعمال کرنے کا تجربہ نہ ہو۔ وہاں ان کی بھی خوب پریکٹس کر لینا۔ منندر جی لائٹ مشین گنیں منگوا دیں تو دو تین ماہ کے بعد ان کی مشق کے لیے ایک بار پھر چکر لگا لینا‘‘۔
میری بات سن کر وہ خوش ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ہم نے مل کر رات کا کھانا کھایا۔ اس دوران میری شیر دل اور مہتاب سنگھ سے اچھی خاصی بے تکلفی ہوگئی۔ وہ دونوں ہی زندہ دل اور سادہ مزاج نوجوان تھے۔ خصوصاً مہتاب سنگھ تو بہت ہی ہنس مکھ تھا۔ سکھبیر کے واپس لوٹنے پر وہ دونوں رخصت ہوکر اپنے شب بسری کے ٹھکانے پر چلے گئے۔
میں نے سوالیہ نظروں سے سکھبیر کی طرف دیکھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’بہت اچھی خبر ہے بھائیا جی۔ ہمارے سارے بڑے لیڈروں نے تم کشمیریوں سے ہر طرح کے تعاون کی منظوری دے دی ہے۔ تمہاری سب سے تگڑی سفارش ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان جی کی طرف سے آئی تھی۔ مجھے کہا گیا ہے کہ کسی مناسب وقت پر تمہارے ساتھ کشمیرکا دورہ کر کے جائزہ لوں کہ وہاں ہمارے لیے حالات کس حد تک سازگار ہیں۔ تم لوگوںکے لیے پشاور اور کابل سے ہتھیار منگوانے اور ضرورت پڑنے پر بیوپاریوں سے براہ راست ملوانے کی بھی اجازت مل گئی ہے‘‘۔
میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’یہ تو واقعی بہت بڑی خوش خبری ہے۔ میں کشمیر میں موجود اپنے ساتھیوں سے حالات کا پتا کرلوں۔ پھر پہلی فرصت میں وہاں چلیں گے۔ لیکن تم کم از کم شیر دل اور مہتاب سنگھ کو ضرور ساتھ لے چلنا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں آتشیں ہتھیار چلانے اور نشانہ بازی کی مشق کا زیادہ موقع نہیں ملتا۔ وہاں دل کھول کر اپنے ارمان پورے کرلیں گے۔ وہ بھی ہندوستانی فوجیوں کو نشانہ بناکر‘‘۔
میری بات سن کر سکھبیر نے پرجوش لہجے میں کہا۔ ’’یار اس سے اچھی کیا بات ہو سکتی ہے؟ تم نے جس طرح مٹھو سنگھ کی چھاتی پر تاک کر نشانے لگائے۔ میں تو رعب میں آگیا تھا۔ یہ مہارت نشانہ بازی کی زبردست پریکٹس سے ہی آسکتی ہے‘‘۔
میں بھلا اس کے اندازے کی تردید کیسے کرتا۔ لہٰذا ہاں میں ہاں ملانے پر اکتفا کیا۔ ہم دونوں کی یگانگت اب اتنی گہری ہوگئی تھی کہ برسوں پرانا یارانا محسوس ہوتا تھا۔ ہم دونوں رات گئے تک گپ شپ کرتے رہے۔ سکھبیر دیر تک اپنی منگیتر اور باقی گھر والوں کے بارے میں بتاتا رہا۔ میں بھی کشمیر میں مقیم اپنے فرضی گھر والوں کے بارے میں داستان طرازی کرتا رہا۔ حتیٰ کہ ہم دونوں ہی باری باری نیند کی آغوش میں کھو گئے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭