پانچ سال میں امریکی انخلا کا مطالبہ طالبان نے مسترد کردیا

محمد قاسم
افغان طالبان نے امریکا کی جانب سے اپنی افواج کے پانچ سال میں انخلا کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ جبکہ انتخابات اور کابل حکومت سے بات چیت کا مطالبہ بھی رد کر دیا گیا ہے۔ افغان طالبان نے امریکی فوج کی واپسی اٹھارہ مہینوں میں کرنے، جنگ بندی اور افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کا معاہدہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ دوسری جانب طالبان نے ہلمند میں امریکی فوجی اڈے پر دھاوا بول دیا۔ حملہ کرنے والے طالبان کمانڈروں کا کہنا ہے کہ جب تک معاہدے پر دستخط نہیں ہو جاتے وہ حملے جاری رکھیں گے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق آج (ہفتے کو) افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات کا اہم دور شروع ہو رہا ہے، جس میں ملا عبدالغنی برادر اور زلمے خلیل زاد اپنے اپنے مذاکراتی وفد کی نمائندگی کریں گے۔ معتبر ذرائع کے مطابق افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان دو روزہ مشاورتی عمل مکمل ہو گیا ہے۔ امریکا نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی افواج کے انخلا کے لئے پانچ سال کا ٹائم دیا جائے۔ اس مدت میں امریکی افواج افغانستان سے تمام ساز و سامان لے جائیں گی۔ تاہم طالبان نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ افغان طالبان صرف اٹھارہ مہینے یعنی ڈیڑھ سال کے اندر امریکی افواج کے انخلا پر تیار ہیں۔ جبکہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے اور جنگ بندی پر بھی آج ہفتے کے روز دستخط ہونے کا امکان ہے۔ تاہم چونکہ امریکی حکام کے پاس اس کا اختیار نہیں، اس لئے امریکی حکام نے مشاورت کے نام پر دو دن کا وقت حاصل کیا جو آج ختم ہو رہا ہے۔ اس دوران اسکاٹ ملر اور زلمے خلیل زاد نے ملا برادر سے لچک دکھانے کی درخواست کی کہ اگر انہیں افغانستان میں ایک اڈہ بھی مل جائے تو انخلا جلد شروع کر سکتے ہیں۔ تاہم ملا برادر نے معذرت ظاہر کر دی کہ وہ یہ فیصلہ اکیلے نہیں کر سکتے۔ ذرائع کے مطابق اگر آج دونوں فریقین کے درمیان معاہدہ نہیں ہوتا تو یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول افغان طالبان نے جو پیش رفت کی ہے، اس کی طالبان کی گرائونڈ فورسز پر زیادہ سے زیادہ اثرات پڑ رہے ہیں اور انہیں زیادہ برتری مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان نے جمعہ کی صبح تین بجے کے قریب ہلمند کے علاقے شوراب کے فوجی اڈے پر اچانک دھاوا بول دیا، جہاں تادم تحریر لڑائی جاری تھی۔ اس حملے میں دس امریکی فوجیوں سمیت متعدد افغان فوجی مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس فوجی اڈے پر 215 افغان فوجی جن کا تعلق میوند بریگیڈ سے ہے، تعینات ہیں۔ جبکہ دو سو کے قریب امریکی میرینز بھی متعین ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے قطر میں موجود رہنمائوں نے اس حملے کو روکنے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ ناکام رہے۔ کیونکہ افغان طالبان کے عسکری کمانڈرز کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا اعلان طالبان نے نہیں کیا، اس لئے وہ شوراب فوجی اڈ ے پر حملہ نہیں روکیں گے۔ جب تک کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہو جاتے حملے جاری رکھے جائیں گے۔ افغان طالبان کے جنوبی افغانستان کے لئے ترجمان قاری یوسف احمدی کے مطابق اس وقت بھی لڑائی جاری ہے۔ طالبان کمانڈروں کا کہنا ہے کہ جب افغان طالبان کے سربراہ جنگ بندی کا اعلان کر دیں گے تو پھر وہ اسے ماننے کے پابند ہوں گے۔ یہ حملہ امریکا اور افغان فورسز کی جانب سے مساجد اور مدارس کو نشانہ بنائے جانے کا جواب ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ میں بعض رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے مذاکرات کے حوالے سے جاری بیان میں کہا ہے کہ جوں جوں امن کی جانب بڑھا جارہا ہے، امن دشمن عناصر کے منفی پروپیگنڈے بھی بڑھ رہے ہیں۔ مذاکرات کے جاری اجلاسوں میں عبوری حکومت کے متعلق بات ہوئی اور نہ ہی انتخاب کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ مذاکرات کے حالیہ اجلاس میں غیر ملکی افواج کے انخلا اور مستبقل میں افغان سرزمین کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔ واجح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم اور امریکی حکام کے درمیان منگل اور بدھ کے روز دوپہر تک بیرونی افواج کے انخلا پر بات چیت ہوئی۔ جمعرات اور جمعہ کے دوران دونوں مذاکراتی ٹیموں کے ورکنگ گروپس کی آپس میں مشاوت اور ہفتے کو (آج) اجلاس کے لئے آمادگی ظاہر کی گئی۔ دوسری جانب افغان طالبان کے سیاسی نائب ملا الحاج عبدالغنی برادر اخوند نے قطر کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد عبدالرحمن الثانی، سلامتی امور کے مشیر محمد المسند، امریکی وزارت خارجہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں مذاکرات کے جاری سلسلے اور افغانستان سے تمام بیرونی افواج کے انخلا پر گفتگو ہوئی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment