قبولِ اسلام کی ذیل کی کہانی ایک ایسے مبلغ اسلام نے بیان کی ہے جو جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی میں پڑھتے رہے ہیں اور فارغ اوقات میں تبلغ دین کا فریضہ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ انہوں نے یہ کہانی عرب رسالے ’’خضارۃ الاسلام‘‘ میں شائع کی تھی۔ جس کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔
مسٹر نکاموار (NAKAMURA) ان چھ جاپانیوں میں شامل تھے، جن کا تعلق بدھوں کے مشہور مذہبی مرکز نیجی (NEEJI) سے تھا اور جو ہمارے تبلیغی گروپ کی کوشش سے مسلمان ہوئے تھے۔ نیجی ٹوکیو سے تقریباً ایک سو کلو میٹر جنوب میں انزان (INZAN) شہر کے قریب واقع ہے۔ انکامورا کا اسلامی نام سعد رکھا گیا۔ یہ صاحب خاصے امیر تھے، ذاتی حیثیت میں بہت اچھی شہرت کے حامل تھے اور صوبہ یامنشی (YAMENSHI) میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ اسلام سے ان کے اخلاص کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے محض دینی تعلیمات کو سمجھنے اور اسلامی معاشرت کا ادراک کرنے کے لیے پہلے پاکستان اور پھر ہندوستان کا سفر اختیار کیا اور دونوں ملکوں میں معقول وقت گزارا۔
مسٹر سعد کی تین بیٹیاں تھیں، بڑی شادی شدہ تھی اور اس کا شوہر ایک پریس کا مالک تھا، جب کہ دونوں چھوٹی بیٹیاں غالباً جڑواں تھیں اور ٹوکیو یونیورسٹی میں آخری سال کی طالبات تھیں۔ دونوں انگریزی ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور سعد کی انتہائی خواہش تھی کہ کسی طرح یہ دونوں لڑکیاں اسلام قبول کرلیں اور پھر دیگر جاپانی خواتین میں اشاعت اسلام کا ذریعہ بنیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مجھے خط لکھا کہ میں اپنے رفقاء کے ساتھ کسی وقت ان کی بیٹیوں سے ملاقات کروں اور انہیں اسلام کی ترغیب دوں۔
چنانچہ فون پر دن اور وقت طے پاگیا اور ہم ایک روز جناب سعد کی بڑی بیٹی کے گھر پر پہنچ گئے، جہاں دونوں چھوٹی بہنوں سے ہماری ملاقات ہوئی اور اسلام کے بارے میں ابتدائی تعارفی گفتگو بھی ہوئی… لیکن ہم نے محسوس کیا کہ اس گھر کا ماحول اسلام پر گفتگو کے لیے کسی بھی طرح موزوں نہیں ہے، اس لیے ہم نے ملاقات ملتوی کر دی اور انہیں دعوت دی تو وہ اگلے جمعہ کو ہماری رہائش گاہ پر آگئیں۔ ان کے والد سعد نکامورا بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ہمارے گروپ لیڈر الحاجی پاکستانی تھے جو بے پناہ دینی اخلاص و عمل کے ساتھ ساتھ کھانا پکانے میں بھی ماہر تھے۔ انہوں نے کئی طرح کے مزیدار کھانے تیار کر لیے، لیکن دونوں بہنوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگائیں گی جب تک اس امر کی وضاحت نہ کردی جائے کہ اسلام میں عورت کی کیا حیثیت ہے؟ پتہ چلا کہ کسی شخص نے انہیں ورغلایا ہے کہ اسلام میں عورت سے جبر اور تشدد کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس مذہب میں عورت کے کوئی حقوق نہیں ہیں، اس کی حیثیت محض باندی کی ہے، عیاشی کے سوا اس کا کوئی مصرف نہیں، اسے مردوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں، بلکہ اس سے تفریح اور مسرت کا حق بھی سلب کر لیا گیا ہے۔
ہم اس صورت حال کے لیے تیار نہیں تھے اور سچی بات ہے کہ دونوں بہنوں کے اس سوال اور اعتراض سے نپٹنا بہت مشکل لگا، لیکن جیسا کہ ہمارا معمول ہے، ہم نے خدا سے دعا کی اور اسی کے فضل و کرم سے میرے ذہن میں بجلی کی لہر کی طرح کچھ باتیں آگئیں۔ میں نے دونوں لڑکیوں سے کہا ’’کیا آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا پسند کریں گی کہ خود خدا خالق کائنات نے آپ کے اس سوال کا کیا جواب دیا ہے؟ دونوں نے جواب دیا کہ، بالکل اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ تب میں نے قریب پڑے ہوئے بک شیلف سے پکتھال کا انگریزی ترجمہ قرآن اٹھایا اور سورۃ احزاب کی آیت نمبر 35 کا ترجمہ ان کو سنانے لگا۔ ترجمہ یوں ہے:
’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، خدا کے آگے جھکنے والے مرد اور خدا کے آگے جھکنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں، خدا کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں… خدا نے ان سب کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭