بنو قریظہ سے اپنا کام ختم کر کے حضرت نعیمؓ بن مسعود قریش کے سپہ سالار ابو سیفان بن حرب کے پاس پہنچے اور اس سے اور اس کے ساتھیوں سے کہا:
’’اے گروہ قریش! یہ بات تمہارے اوپر مخفی نہیں ہے کہ مجھے تم سے کتنی گہری محبت ہے اور محمدؐ کے ساتھ کیسی سخت عداوت ہے۔ مجھے ایک بڑی اہم بات معلوم ہوئی ہے اور تمہاری خیر خواہی کا تقاضا سمجھ کر میں یہ بات تمہارے گوش گزار کر دینا ضروری سمجھتا ہوں، بہتر یہ ہے کہ تم اس بات کو راز میں رکھو، کسی کے سامنے ظاہر نہ کرو‘‘۔ جب قریش نے رازداری کا وعدہ کر لیا تو انہوں نے کہا۔
’’بنو قریظہ کے یہودی محمدؐ کے ساتھ دشمنی مول لے کر اب بہت پچھتا رہے ہیں۔ اس کی تلافی کے لیے انہوں نے محمدؐ کے یہاں کہلا بھیجا ہے کہ ہم اپنے کیے پر نادم ہیں اور آپؐ کے ساتھ صلح نامے کی تجدید کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپؐ یہ پسند کریں گے کہ ہم قریش اور غطفان سے ان کے سرداروں کی ایک کثیر تعدا بطور یرغمال لے کر آپؐ حوالے کر دیں کہ آپؐ ان کی گردنیں مار دیں۔ پھر جنگ میں ہم ان کے بجائے آپؐ کا ساتھ دیں اور آپؐ ان کے اوپر آخری فیصلہ کن وار کر سکیں اور محمدؐ نے ان کی اس پیشکش کو قبول کر لیا ہے۔ تو اگر یہودی تم سے یرغمال کے طور پر کچھ آدمیوں کا مطالبہ کریں تو تم ایک آدمی بھی ان کے حوالے نہ کرنا۔‘‘
’’تم ہمارے بہترین حلیف ہو، خدا تعالیٰ تم کو بہترین جزا دے۔‘‘ ابو سفیان نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔
حضرت نعیمؓ بن مسعود ابو سفیان کے یہاں سے نکل کر اپنے قبیلے بنو غطفان کے پاس پہنچے اور ان سے بھی وہی ساری باتیں کیں، جو ابو سفیان سے کہہ چکے تھے اور اس خطرے اسے انہیں بھی چوکنا رہنے کی تاکید کی، جس سے ابو سفیان کو آگاہ کر چکے تھے۔
ابو سفیان نے بنو قریظہ کو آزمانے کے لیے ان کے پاس اپنے بیٹے کو بھیجا۔ اس نے ان سے کہا کہ میرے والد نے تم کو سلام کہا ہے اور تمہارے پاس پیغام بھیجا ہے کہ ’’ہم محمدؐ اور ان کے اصحاب کے خلاف اس محاصرے کی طوالت سے تنگ آ چکے ہیں اور جلد از جلد ان کے ساتھ جنگ شروع کر کے اس قضیہ کو نمٹا دینے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس لیے تم بھی کل ان کے خلاف اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دو۔‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ کل تو ہفتہ کا دن ہے۔ اس روز ہم کوئی کام نہیں کرتے۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم اس وقت تک تمہارے جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے، جب تک تم اپنے اور بنو غطفان کے سربرآوردہ اشخاص کو یرغمال کے طور پر ہمارے حوالے نہیں کر دیتے۔ اس لیے کہ ہم کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ جب جنگ شدت اختیا رکر جائے گی تو تم ہمیں محمدؐ کے مقابلے میں تنہا چھوڑ کر اپنے علاقے کی طرف بھاگ جائو گے اور تم جانتے ہو کہ ہم تنہا ان کا مقابلہ نہیںکر سکتے۔ جب ابو سفیان کے لڑکے نے واپس جا کر اپنے لوگوں کو وہ باتیں بتائیں جو اس نے بنو قریظہ سے سنی تھی تو سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
’’بڑے ملعون ہیں یہ بندروں اور خنزیروں کی اولاد۔ خدا کی قسم، اگر یہ ہم سے یرغمال کے طور پر ایک بکری بھی مانگیں تو ہم انہیں نہیں دے سکتے۔‘‘
حضرت نعیمؓ بن مسعود اپنے منصوبے کے مطابق متحدہ جماعتوں کی صفوں کو پراگندہ کرنے اور ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں پورے طور پر کامیاب ہو گئے۔ ادھر خدا تعالیٰ نے قریش اور ان کے حلیفوں کے اوپر تیز اور سرکش آندھی کے جھکڑ بھی بھیج دیئے، جن کی زد میں آ کر ان کے خیمے اکھڑ گئے، دیگیں الٹ گئیں اور چولہے بجھ گئے۔ تیز ہوائیں ان کے چہروں پر طمانچے لگاتی اور آنکھوں میں مٹی ڈال رہی تھیں۔ اب سوائے اس کے کہ وہ یہاں سے کوچ کر جائیں یا اس مصیبت سے نجات کی کوئی دوسری راہ انہیں نظر نہیں آ رہی تھی، چنانچہ راتوں رات وہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔ جب صبح کو مسلمانوں نے دیکھا کہ ان دشمنان خدا کے وجود سے پورا میدان صاف ہو چکا ہے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے ہیں تو وہ خوشی سے چلا اٹھے:
’’شکر ہے اس خدا کا، جس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی، اپنے لشکر کی مدد کی اور تنہا متحدہ فوجوں کامنہ پھیر دیا۔ ‘‘
اس روز کے بعد سے حضرت نعیمؓ بن مسعود رسول اکرمؐ کے انتہائی قابل اعتماد لوگوں کی صف میں اپنا مقام پیدا کر چکے تھے۔ آپؐ نے ان کو والی بھی بنایا اور فوجی دستوں کی قیادت بھی ان کے سپرد کی۔
فتح مکہ کے موقع پر ابو سفیان لشکر مجاہدین کے مختلف دستوں کو یکے بعد دیگرے اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھ رہا تھا، جب اس نے قبیلہ غطفان کے علم بردار کو دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا:
’’یہ کون ہے؟‘‘
’’یہ حضرت نعیمؓ بن مسعود ہیں۔‘‘ اس کے ساتھیوں نے بتایا۔
’’ اس نے جنگ احزاب کے موقع پر ہمارے ساتھ بہت برا سلوک کیا تھا، خدا کی قسم، یہ محمدؐ کا سب سے کٹر دشمن تھا اور یہ دیکھو آج یہ اپنے قبیلے کا جھنڈا اٹھائے ان کے آگے چل رہا ہے اور ان کی ماتحتی میں ہمارے ساتھ لڑنے کے لیے جا رہا ہے۔ ‘‘ ابو سفیان نے کہا۔
٭٭٭٭٭00