قیصر چوہان
پی ایس ایل سیزن فور سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ٹی ٹوئنٹی اسپیشلسٹ کی نئی کھیپ مل گئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بالرز کی کارکردگی متاثر کن رہی۔ جبکہ سپر لیگ میں تینوں شعبوں میں اب تک قومی ٹیم کے ریگولر کھلاڑیوں کی حکمرانی قائم ہے۔ دوسری جانب عمر اکمل بدستور سلیکٹرز کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کو اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کیلئے اب صرف محدود مواقع میسر رہ گئے ہیں۔ ادھر سابق اسپنر و چیف سلیکٹر عبدالقادر کا کہنا ہے کہ ون ڈے فارمیٹ کیلئے ٹی ٹوئنٹی پلیئرز نہ لیئے جائیں۔ ڈومیسٹک سطح پر ون ڈے ایونٹس کو زیادہ توجہ دی جائے۔ پاکستان کے پاس ایسے بیٹسمینوں اور بالرز کی کمی ہے، جو 50 اوورز فارمیٹ میں تسلسل کے ساتھ پرفارمنس پیش کریں۔ عبدالقادر کا کہنا ہے کہ جو لڑکا جس فارمیٹ میں کارکردگی دکھائے، اس کو اسی طرز کی کرکٹ میں موقع دینا چاہیے۔ ٹی ٹوئنٹی پرفارمنس پر ٹیسٹ اور ون ڈے کی ٹیم منتخب کرنا درست نہیں۔ اسی پالیسی کی وجہ سے قومی ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم خراب ہو رہی ہے۔ انہوں نے پی سی بی حکام کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ احسان مانی اینڈ کمپنی نے اب تک ایسا کچھ کیا ہی نہیں، جس کو سراہا جا سکے۔ پی ایس ایل کاکریڈٹ نجم سیٹھی سے نہیں چھینا جاسکتا۔ اس میں موجودہ انتظامیہ کا کوئی کمال نہیں۔ سابق اسپنرز کا کہنا تھا کہ ویسٹ انڈیز بورڈ کی طرح پی سی بی کو بھی چاہیے کہ وہ مینٹورز کے لیے باہر سے ویوین رچرڈز کی طرح بڑے نام ٹیموں کے ساتھ رکھے۔ دوسری جانب پاکستان سپر لیگ سیزن فور میں تین فاسٹ بالرز اور ایک اسپنر کی کارکردگی نے سب کو متاثر کیا ہے۔ راولپنڈی کے محمد موسیٰ اور حارث رؤف اور حیدرآباد کے محمد حسنین کو فاسٹ بالنگ میں مستقبل کا اسٹار قرار دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے شعیب ملک کا کہنا ہے کہ ان کھلاڑیوں کو فوری آزمانے کے بجائے ان کی خامیوں پر مزید کام کیا جائے۔ سپر لیگ میں کئی باصلاحیت کرکٹرز دکھائی دیئے ہیں۔ تاہم ان کرکٹرز کی صلاحیتوں کو پالش کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کنگز کے لیفٹ آرم اسپنر عمر خان ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ وہ اب تک سات میچوں میں سات بڑے کھلاڑیوں کو شکار کر چکے ہیں۔ ان کی بالنگ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اہم موقع پر اپنی ٹیم کو بریک تھرو دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے حوالے سے ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور سابق فاسٹ بالر وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ عمر خان نے اسی طرح محنت جاری رکھی تو ان کا مستقبل روشن ہے۔ اسی طرح عمر خان کا کہنا ہے کہ اے بی ڈی ویلیئرز کو آئوٹ کرنے کے بعد اپنی صلاحیتوں کا درست طرح سے انداز ہوا۔ اب کراچی کنگز کو فائنل تک لے جانا ان کا اہم مشن ہے۔ واضح رہے کہ عمر خان کا تعلق فاٹا کے علاقے سے ہے اور ان کے والد کی ٹائر پنکچر کی دکان تھی۔ اپنے بیٹے کا کرکٹ کا شوق پورا کرنے کے لیے انہوں نے عمر خان کی قدم قدم پر رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔ عمر خان سابق لیفٹ آرم اسپنر ندیم خان کی دریافت ہیں۔ جو اس نوجوان بالر کی صلاحیتوں سے بے حد متاثر ہوئے اور انہیں یونائیٹڈ بینک کی ٹیم میں لے آئے۔ یہاں سے عمر سوئی سدرن گیس کی ٹیم میں شامل ہوئے۔ عمر خان کا فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز بہت متاثر کن تھا۔ دوسری جانب حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے محمد حسنین نے پاکستان سپر لیگ میں 151 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹورنامنٹ کی سب سے تیز گیند کوئٹہ کی جانب سے ملتان سلطانز کے خلاف پھینکی۔ حسنین اس سے قبل ٹورنامنٹ میں 149 کلو میٹر کی رفتار سے بھی بالنگ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فاسٹ بالنگ میں ان کے ہیرو وقار یونس، شعیب اختر اور محمد سمیع ہیں۔ کوئٹہ نے انہیں تلاش کیا اور موقع دیا۔ خوشی ہو رہی ہے کہ جن لوگوں کو تیز بالنگ کرتے ہوئے دیکھا، ان کو قریب سے بھی دیکھا۔ حسنین نے کہا کہ بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کر محظوظ ہو رہا ہوں، لیکن کسی قسم کے دباؤ کے بغیر کھیل رہا ہوں۔ سر ویو رچرڈز انہیں سمجھاتے رہتے ہیں کہ لانگ ٹرم کوئی گول نہیں ہے۔ بس میچ ٹو میچ جانا چاہتا ہوں۔ اپنی خوراک کے حوالے سے فاسٹ بالر محمد حسنین نے کہا کہ وہ نارمل خوراک کھاتے ہیں۔ دوسری جانب پی ایس ایل فور کے ریکارڈ بک کا جائزہ لیا جائے تو قومی ٹیم کے ریگولر پلیئرز ہی سب سے آگے ہیں۔ فاسٹ بالنگ میں اس وقت حسن علی 18 شکار کے ساتھ سر فرہست ہیں۔ جبکہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سہیل تنویر 12 وکٹوں کے ساتھ فہرست میں دوسرے نمبر پر موجود ہیں۔ پی ایس ایل کا ایک اور نیا ٹیلٹ حارث رئوف ہیں۔ جنہوں نے اپنی اسپیڈ اور جارح مزاجی سے شائقین کی توجہ حاصل کرلی ہے۔ انہوں نے اب تک اس ایونٹ میں 11 بار وکٹیں اڑا کر فہرست میں تیسری پوزیشن حاصل کر رکھی ہے۔ اسی طرح شعیب ملک 240 رنز کے ساتھ ایونٹ کے اب تک کے ٹاپ اسکورر ہیں۔ جبکہ دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر غیر ملکی بلے بازوں کا راج ہے۔ شعیب ملک کے علاوہ 200 رنز مکمل کرنے کا اعزاز اب تک بابر اعظم اور عمر اکمل کو حاصل ہے۔٭
٭٭٭٭٭