پولیس فائرنگ سے جاں بحق طالبہ کا تعلق بھی پولیس فیملی سے تھا

عظمت علی رحمانی
ایک ہفتہ قبل کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں ڈکیتوں سے مقابلے کے دوران پولیس فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہونے والی میڈیکل کی طالبہ نمرہ بیگ کا تعلق بھی پولیس فیملی سے تھا۔ نمرہ کے والد اور دادا محکمہ پولیس سے وابستہ رہے۔
22 فروری کو جمعہ کی شب نارتھ کراچی انڈا موڑ کے قریب پولیس اور ڈاکوئوں کے درمیان مقابلے کی زد میں آکر جاں بحق ہونے والی میڈیکل کی طالبہ نمرہ بیگ کی لاش جمعہ کی رات پوسٹ مارٹم کیلئے جناح اسپتال کے مردہ خانہ لائی گئی تھی۔ تاہم جناح اسپتال میں لیڈی ایم ایل او موجود نہیں تھی۔ فون پر رابطہ کرنے پر لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ نے اسپتال آنے سے انکارکردیا تھا۔ لیڈی ایم ایل او کا موقف تھا کہ پہلی ایم ایل او رپورٹ عباسی شہید اسپتال میں درج ہوئی ہے، لہٰذا پوسٹ مارٹم بھی وہیں سے کرایا جائے۔ دوسری جانب پولیس حکام کا اصرار تھا کہ نمرہ بیگ کی موت جناح اسپتال پہنچنے کے بعد ہوئی ہے اور اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جناح اسپتال سے جاری ہوا ہے، لہٰذا پوسٹ مارٹم بھی جناح اسپتال میں ہی ہونا چاہئے۔ جناح اسپتال کی لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ کی اس ٹال مٹول کے حوالے سے جناح اسپتال ایمرجنسی سینٹر کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ایم ایل اوز، براہ راست ہمارے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ یہ پولیس سرجن کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ڈاکٹر ذکیہ زیادہ تر گھر سے آن کال ہوتی ہیں، ڈیوٹی پر کم ہی آتی ہیں۔ اس روز بھی ان کو آنے میں 5 گھنٹے لگ گئے تھے۔ میں نے لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر ذکیہ کی غلفت کے بارے میں وزیر صحت، سیکریٹری ہیلتھ اور پولیس سرجن کو خط لکھ کر آگاہ کردیا ہے‘‘۔
معلوم رہے کہ 23 سالہ متوفیہ نمرہ بیگ کا تعلق بھی پولیس گھرانے سے ہی تھا۔ نمرہ کے والد مرزا اعجاز بیگ پولیس میں تھے، جو 2009ء میں وفات پا گئے۔ جبکہ نمرہ کے دادا بھی پولیس میں ہی تھے۔ والد کی وفات کے بعد نمرہ بیگ اپنی والدہ اور بھائی کے ہمراہ ماموں کے گھر منتقل ہو گئی تھی۔ نمرہ ڈائو میڈیکل یونیورسٹی میں فائنل ایئر کی طالبہ اور دو بہن بھائیوں میں بڑی تھی۔ نمرہ کی والدہ نجی کالج میں لیکچرار ہیں۔ جبکہ بھائی21 سالہ مرزا حسن بیگ ابھی زیر تعلیم ہیں۔ نمرہ کے گھر والوں کو اس کے جاں بحق ہونے کی خبر ٹیلی ویژن کے ذریعے ہوئی تھی۔ نمرہ کے ماموں محمد ذکی خان کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میں نے ٹی وی چینلز پر خبر نشر ہونے پر نمرہ کے موبائل فون پر کال کی تو کسی نامعلوم شخص نے فون اٹھایا اورکہا کہ آپ لوگ جلد عباسی شہید اسپتال پہنچیں۔ عباسی شہید اسپتال پہنچے تو ہم سے کہا گیا کہ نمرہ کو جناح اسپتال منتقل کر دیا ہے۔ جناح اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں کی جانب سے بتایا گیا کہ نمرہ کے سر میں گولی لگی ہے۔ ہمیں شروع میں یہی کہا گیا کہ ڈکیتوں سے پولیس مقابلے ڈاکوئوں کی گولی سے نمرہ کی موت واقع ہوئی ہے۔ جبکہ ہم نے خود پولیس والوں سے سنا کہ ان سے یہ غلطی ہوئی ہے‘‘۔ ذکی خان نے بتایا کہ ’’ہم نے اب تک مقدمہ درج نہیں کرایا ہے۔ ہم حتمی رپورٹ کا انتظارکررہے ہیں، جس کے بعد مقدمہ درج کرائیں گے۔ میں نمرہ کی لاش کے ساتھ جناح اسپتال میں موجود تھا کہ اس دوران جناح اسپتال کا عملہ خاتون ایم ایل او ذاکٹر ذکیہ کو فون کرتا رہا کہ آجائیں ایک نوجوان لڑکی کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے۔ اتفاق سے موبائل کا لائوڈ اسپیکر آن تھا جس کی وجہ سے آواز پولیس آفیشل بھی سن رہے تھے۔ لیڈی ایم ایل او نے انکار کیاکہ میں نہیں آئوں گی، تاہم بعد ازاں وہ 4 گھنٹے کی تاخیر سے پہنچ گئیں۔ انہوں نے بلند آواز میں ہمیں کہا کہ بچی کا دماغ کھولنا اور جسم کاٹنا پڑے گا۔ یہ بات اس نے اس لئے کہی کہ ہم ڈر جائیں اور پوسٹ مارٹم سے انکار کردیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ معاملے کی غیر جانبدارانہ اور مکمل تحقیقات کی جائیں اور جو حقائق ہیں انہیں سامنے لاجائے۔
ایس ایس پی سینٹرل رائو عارف اسلم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شارع نورجہاں پولیس کا ڈاکوئوں سے مقابلہ ہوا تھا۔ نمرہ دوطرفہ فائرنگ کی زد میں آئی اور بدقسمتی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پولیس کی فائرنگ سے ایک ڈاکو ہلاک دوسرا زخمی بھی ہوا تھا۔ عینی شاہدین نے بھی بتایا کہ گولیاں دونوں جانب سے چلی ہیں، اس لئے لواحقین کا پولیس پر شک کا اظہار جائز ہے۔ لواحقین کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ شفاف تحقیقات ہوںگی۔ جس کی غلطی ہوگی اس کو سزا ضرور ملے گی۔
واضح رہے کہ نمرہ کے جاں بحق ہونے کی خبریں نشر ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ سے تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی، جس کے بعد تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ نے ڈی آئی جی سی آئی اے عارف حنیف کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جس میں انچارج ایس آئی یو، ایس ایس پی نعمان صدیقی اور ایس پی ٹریفک سمیع اللہ سومرو کو شامل کیا گیا تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی آج (پیر کو) اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ سندھ کو پیش کرے گی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment