دیسی گھی کے نام پر پنجاب میں بڑی جعلسازی پکڑی گئی

نجم الحسن عارف
پنجاب میں دیسی گھی کے نام پر کی جانے والے بڑی جعلسازی پکڑی گئی۔ دودھ کی پیداوار کے حوالے سے ملک بھر میں اہمیت رکھنے والے شہر ساہیوال میں گھی ساز فیکٹری کا ایک کروڑ روپے مالیت کا دس ہزار کلو گرام مال انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نکلا۔ رجسٹرڈ شدہ فیکٹری میں موجود خام مال یعنی کریم کا دو مرتبہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ٹیسٹ کرایا اور دونوں مرتبہ نہ صرف یہ کہ کریم میں انسانی صحت کیلئے مضر صحت اجزا پائے گئے، بلکہ ملاوٹ کا عنصر بھی نمایاں رہا۔ ذرائع کے مطابق فوڈ اتھارٹی نے فیکٹری مالکان کی درخواست پر دوسری مرتبہ دیسی گھی کی تیاری میں کام آنے والی کریم کا لیبارٹری تجزیہ کرایا تھا، لیکن پہلے لیبارٹری تجزیے کی طرح دوسری مرتبہ بھی نتائج یکساں رہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے دیسی گھی کی اتنی بھاری مقدار پہلی مرتبہ تلف کی گئی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اس فیکٹری کی ورکنگ اور پروڈکشن پر اس وقت تک پابندی بھی عائد کر دی ہے جب تک اس فیکٹری میں دیسی گھی بنانے سے متعلق دیگر تمام معاملات پر متلعقہ حکام کو مطمئن نہیں کردیا جاتا۔ جبکہ فیکٹری مالکان کو انسانی صحت کے خلاف دیسی گھی تیار کرنے پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب فوڈ اٹھارٹی کے مطابق دیسی گھی بنانے والی باقی تمام فیکٹریوں کا بنایا ہوا مال اور اس کے لئے استعمال ہونے والی کریم غیر معیاری اور انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ترجمان نے اس جعلساز فیکٹری کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ فیکٹری بہرحال ایک بڑی فیکٹری شمار ہو تی ہے اور اس کا بنایا ہوا مال پنجاب سے باہر دوسرے صوبوں میں بھی جاتا ہے۔
واضح رہے کہ دیسی گھی کی کاروباری پیمانے پر تیاری میں عام طور پر شکایت رہی ہے کہ اس میں ملاوٹ بھی کی جاتی ہے اور دیسی گھی کا ایسنس استعمال کر کے صارفین کو عام کوکنگ آئل یا بناسپتی گھی کئی گنا مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ ’’امت‘‘ کو اس انڈسٹری کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مارکیٹ میں ایسا دیسی گھی بھی موجود ہے، جس میں مینو فیکچرر تیس سے چالیس فیصد تک ملاوٹ کرتے ہیں۔ اس ملاوٹ کے لئے ویجی ٹیبل فیٹس یا عام کوکنگ آئل اور بناسپتی گھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ فیکٹری مالکان مردہ جانوروں کی چربی اور انتڑیوں کو ایک خاص قسم کے پراسس سے گزارنے کے بعد اسے ملاوٹ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ دس سے بیس فیصد تک ملاوٹ کرنے پر گھی مل مالکان کو ویسے ہی چھوٹ مل جاتی ہے۔ کیونکہ دس فیصد تک کی ملاوٹ کو ٹریس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم اس سے زیادہ ملاوٹ کی گئی ہو یا ویجی ٹیبل فیٹس استعمال کئے گئے ہوں تو اس کا باآسانی لیبارٹری سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول مارکیٹ میں مختلف ناموں سے موجود دیسی گھی میں تیس فیصد تک ویجی ٹیبل فیٹس کی ملاوٹ کا امکان رد نہیں کیا جاتا۔ اس کا آسان ترین طریقہ گھی کی تیاری کے دوران اپنی پسند کے تناسب سے کوکنگ آئل یا گھی استعمال کرکے اسے مکسچر کے حوالے کر دینا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے مرحلے پر اس میں دیسی گھی کا اسینس شامل کر کے ایک مرتبہ پھر مکسچر کو چلا دیا جاتا ہے، جس سے کم ترین لاگت سے زیادہ مقدار میں دیسی گھی تیار ہو جاتا ہے۔ یوں گھی ساز فیکٹریوں کے مالکان کے لئے زیادہ منافع بھی ممکن ہو جاتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ساہیوال میں چھوٹے بڑے درجنوں گھی ساز ادارے موجود ہیں اور ان کی مصنوعات پورے ملک میں جاتی ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ایک بڑی فیکٹری اس طرح زد میں آئی اور اس کا سارا خام مال اور تیار شدہ دیسی گھی انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہونے کی بنیاد پر تلف کر دیا گیا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ترجمان نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’اس فیکٹری نے خام مال (کریم) باہر سے درآمد کر رکھی تھی۔ ہمارے ادارے نے سیمپل اسی درآمد شدہ کریم کا ہی لیا تھا۔ جب اس کے نمونے کو لیبارٹری میں بھیجا گیا تو اس میں انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والے بکٹیریاز کا انکشاف ہوا۔ فوڈ اتھارٹی کی اس رپورٹ پر مالکان فیکٹری نے اطیمنان نہیں کیا اور کہا کہ ایک مرتبہ پھر نمونے حاصل کیے جائیں اور تجزیہ کرایا جائے۔ فیکٹری مالکان کے اطمینان کے لئے فوڈ اتھارٹی کے متعلقہ اسٹاف نے دوبارہ نمونے لئے اور فیکٹری مالکان کی پسند کی لیبارٹری کو بھجوا دیا۔ اس لیبارٹری نے بھی وہی نتائج دیئے، جو پہلے والی لیب نے دیئے تھے۔ گویا در آمد کردہ کریم میں بکٹیریاز کی نشاندہی کی توثیق ہو گئی۔ اس کے بعد ڈی جی فوڈ اتھارٹی نے فیکٹری میں موجود سارے خام مال اور اس سے تیار کیے گئے دیسی گھی کو تلف کرنے کا حکم دیا‘‘۔ ترجمان کے مطابق یہ خام مال مختلف گھی ساز فیکٹریاں مختلف ممالک سے منگواتی ہیں۔ عام طور پر یہ کریم آسٹریلیا، تھائی لینڈ اور چین سے منگوائی جاتی ہے۔ ایک سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ تلف کئے گئے دیسی گھی میں صرف انسانی صحت کے لئے نقصان دہ عناصر موجود نہیں تھے، بلکہ اس میں ملاوٹ کا عنصر بھی پایا گیا تھا۔ ترجمان نے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’جب تک متعلقہ فیکٹری فوڈ اتھارٹی کی طرف سے بتائے گئے دوسرے ٹیسٹوں کو مکمل نہیں کرے گی، اسے پروڈکشن کی اجازت نہیں ہو گی‘‘۔ ترجمان نے مزید کہا کہ فوڈ اتھارٹی نے دیسی گھی کو اپنے طے شدہ ایس او پیز کے مطابق تلف کیا ہے اور دس ہزار کلو گرام کی مقدار میں دیسی گھی کو زمین میں دبا دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment