سشما کو او آئی سی میں بھیجنا مودی کے گلے پڑگیا

امت رپورٹ
سشما سوراج کو او آئی سی اجلاس میں بھیجنا مودی سرکار کے گلے پڑگیا ہے۔ یاد رہے کہ او آئی سی کے دعوت نامے کو بی جے پی حکومت اپنی بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہی تھی۔ تاہم مقبوضـہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت سے متعلق قرار داد کی منظوری کے بعد معاملہ الٹا ہوگیا۔ نئی دہلی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے جنگی محاذ اور اب سفارتی محاذ پر بڑی ناکامی سے بی جے پی کی انتخابی مہم کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ ذرائع کے بقول کانگریس سمیت دیگر چھوٹی بڑی چالیس اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی کی دونوں ناکامیوں کو اپنی انتخابی مہم میں نعرے کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ادھر اسلام آباد میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ سشما سوراج کو مدعو کرنے پر پاکستان کی ناراضگی پر تنظیم کے متعدد ارکان اور بالخصوص عرب ممالک کو تشویش تھی۔ تاہم بھارت مخالف قرارداد کی منظوری سے پاکستان کے تحفظات کا ازالہ کردیا گیا۔
بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے او آئی سی اجلاس میں بھارت مخالف قرارداد منظور ہونے پر مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ یاد رہے کہ اس قرارداد کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اتوار کو کانگریس کے ترجمان منیش تیواڑی نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے وزیر خارجہ سشما سوراج کو اجلاس میں بھیج کر نہ صرف او آئی سی کو قانونی حیثیت دی۔ بلکہ بھارت کے قومی مفاد کو بھی دائو پر لگا دیا ہے۔ قرارداد میں کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کی مذمت کے علاوہ بھارت کو کشمیر پر قابض بھی قرار دیا گیا۔ یہ قرارداد اجلاس میں سشما سوراج کی شرکت کے ایک روز بعد ہفتے کو منظور کی گئی۔ جس میں برہان وانی کے ماورائے عدالت قتل، مقبوضہ کشمیر میں 2016ء سے بھارتی مظالم میں تیزی اور اس کے نتیجے میں 220 افراد کی اموات کی شدید مذمت کی۔ جبکہ پیلٹ گن جیسے غیر انسانی عمل کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کانگریس ترجمان کے بقول گزشتہ چند دہائیوں سے بھارت او آئی سی اجلاس میں شرکت سے دانستہ گریز کر رہا تھا۔ تاہم مودی حکومت نے اجلاس میں شرکت کرکے بھارت پر دہشت گرد ملک کا لیبل بھی لگوالیا۔ بھارتی اخبار نیشنل ہیرالڈ کے مطابق بی جے پی حکومت، او آئی سی میں شرکت کی دعوت کو ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہی تھی۔ تاہم اس کا نتیجہ بھارت کی حد درجہ شرمندگی کی صورت میں نکلاہے۔
ادھر دہلی میں موجود ذرائع نے بتایا کہ او آئی سی اجلاس میں شرکت پر مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے سے پہلے نئی دہلی میں کانگریس کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں اس بات کا اصولی فیصلہ کیا گیا کہ جنگی اور سفارتی محاذ پر بی جے پی حکومت کی ناکامی کو انتخابی مہم کے دوران پوری طرح بے نقاب کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں جلسے جلوسوں میں بی جے پی حکومت سے بالاکوٹ حملے کے شواہد مانگے جائیں گے اور ساتھ ہی عوام کو بتایا جائے گا کہ پلوامہ حملہ نہ صرف حکومت کی نااہلی سے ہوا، بلکہ اس کے جواب میں بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے خیالی کیمپ کو تباہ اور تین سو افراد کو ہلاک کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا، تاکہ عوام کو بیوقوف بنایا جاسکے۔ کانگریس کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اتحادی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر سفارتی محاذ پر بی جے پی حکومت کی ناکامی بھی بے نقاب کی جائے گی کہ کس طرح بی جے پی حکومت کی وزیر خارجہ نے پہلے بغیر سوچے سمجھے او آئی سی اجلاس میں شرکت کی اور بعد ازاں بھارت مخالف قرارداد منظور ہونے سے رکوانے میں ناکام رہیں۔ بی جے پی کی ریلیوں کو کور کرنے والے ایک بھارتی صحافی کے بقول جنگی و سفارتی محاذ پر بی جے پی کی تازہ ناکامیوں کا اثر ان کے جلسوں پر دکھائی دینا شروع ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز بہار کے گاندھی گرائونڈ میں نریندر مودی کے جلسے میں توقعات سے انتہائی کم لوگ شریک ہوئے۔ بی جے پی کے منتظمین گاندھی پارک کا ایک چوتھائی حصہ بمشکل بھر پائے۔ باقی تین چوتھائی گرائونڈ خالی پڑا رہا۔ اس جلسے پر طنز کرتے ہوئے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرشاد نے کہا کہ ’’اتنے لوگ تو میں پان کا کھوکھا کھول کر جمع کرلوں‘‘۔
اسلام آباد میں موجود سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے او آئی سی اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان معمولی بات نہیں تھی۔ اسلامی تنظیم اگرچہ ستاون ارکان پر مشتمل ہے۔ تاہم اس کے طاقتور ارکان میں پاکستان، ایران اور ترکی شامل ہیں۔ لہٰذا پاکستان کے احتجاج کو نظر انداز کرنا آسان نہیں تھا۔ اس ناراضگی کو ختم کرنے میں سب سے بڑی ذمہ داری میزبان ملک متحدہ عرب امارات کی تھی۔ بطور میزبان متحدہ عرب امارات نے دیگر رکن ممالک کی مشاورت کے بغیر بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اگر پلوامہ واقعہ کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ جیسی صورتحال پیدا نہ ہوتی، تو شاید سشما سوراج کی موجودگی کو برداشت کرلیا جاتا۔ تاہم پلوامہ واقعہ کے بعد تبدیل ہونے والی صورتحال میں یہ ممکن نہیں تھا کہ او آئی سی میں بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت کو پاکستان قبول کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے وزارت خارجہ کی سطح پر ایک سے زائد بار متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زیاد سے رابطہ کر کے سشما سوراج کو مدعو کرنے کا فیصلہ واپس لینے کی درخواست کی تھی۔ تاہم یو اے ای حکام کا کہنا تھا کہ عین موقع پر دعوت نامہ منسوخ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ جس پر پاکستان نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو ترکی سمیت کئی دوست ممالک نے اس پر تشویش ظاہر کی تھی۔ بعد ازاں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی شدید مذمت پر مشتمل قرارداد منظور کرکے پاکستان کی ناراضگی کا ازالہ کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے اگرچہ اجلاس میں اپنا وزیرخارجہ نہیں بھیجا تھا۔ تاہم سشما سوراج کے خطاب کے دوسرے روز اجلاس میں پاکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اور پاکستان کا مقدمہ پوری قوت کے ساتھ پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں او آئی سی کے رکن ممالک نے پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی ایک قرارداد کو بھی منظور کیا، جس میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں مظالم سے متعلق پاکستان کے موقف پر مبنی قرارداد منظور کرانے میں ترکی کے وزیر خارجہ نے بھی رول ادا کیا۔ ذرائع کے بقول عرب ممالک کے بھارت سے چاہے کتنے ہی مضبوط اکانومی تعلقات ہوجائیں، لیکن ان تعلقات کی بنیاد پر عرب ممالک پاکستان کی ناراضگی افورڈ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو معلوم ہے کہ جب بھی برا وقت پڑا تو انہیں بچانے پاکستان ہی آگے آئے گا، بھارت نہیں۔
ادھر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق بھارت نے مسئلہ کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے او آئی سی کی منظور کردہ قرارداد مسترد کر دی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment