حضرت سعید بن جبیرؒ
’’حضرت سعید بن جبیرؒ اس وقت شہید کر دیئے گئے جبکہ روئے زمین پر ہر کوئی ان کے علم کا محتاج تھا۔‘‘ (امام احمد ابن حنبلؒ)
حلیہ…: مضبوط جسم اور لمبا چوڑا آدمی، چاق و چوبند، چالاک و ہوشیار ہونے کے ساتھ ساتھ ہر بھلائی کی طرف بڑھنے والا اور ہر برے کام سے بچنے والا تھا، اس نوجوان کے لیے سیاہ رنگ، گھنگھریالے بال، حبشی ہونا اور غربت اور فقیری اس کی ممتاز شخصیت میں کوئی رکاوٹ نہ تھے اور نہ ہی یہ چیزیں اس کے علم اور عمل کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے سے رکاوٹ بن سکیں۔
نوجوان نے جو نسل کے اعتبار سے حبشی اور نسب (خاندان) کے اعتبار سے عربی تھا، اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ، علم ہی وہ بہترین اور آسان ذریعہ ہے، جو حق تعالیٰ تک پہنچا سکتا ہے اور تقویٰ ہی وہ سیدھا راستہ ہے، جو اسے جنت تک پہنچانے کا باعث بنے گا۔
اس نے تقویٰ کا ہتھیار اپنے دائیں ہاتھ میں لیا اور علم کا جھنڈا اپنے بائیں ہاتھ میں تھاما۔ دونوں کو نہایت مضبوطی سے پکڑا اور بغیر کسی کمی اور کوتاہی اور سستی کے زندگی کے مشکل سفر پر چل رہا تھا۔
بچپن سے ہی لوگ اسے پوری توجہ سے کتاب پڑھتا ہوا یا مسجد کے ایک کونے میں دنیا اور دنیا کی چیزوں سے بے خبر عبادت کرتا ہوا دیکھتے۔
یہ تھے اپنے زمانے میں مسلمانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک حضرت سعید بن جبیرؒ۔ خدا کی کروڑوں رحمتیں ہوں ان پر۔
تحصیل علم
حضرت سعید بن جبیرؒ نے جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے علم حاصل کیا، ان کے اساتذئہ کرام مردوں میں سے حضرت ابو سعیدی خدریؓ، حضرت عدی بن حاتمؓ طائی، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت ابو ہریرہ دوسیؓ، حضرت ابن عمرؓ تھے اور عورتوں میں اُمّ المئومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ تھیں۔
ان کے علاوہ علم کے سمندر حضرت ابن عباسؓ ان کے بڑے استاد اور معلم تھے جو امت محمدیہ کے علماء وفقہاء کے سردار ہیں، جن کا لقب حبر امۃ (یعنی امت کے علم کا سمندر) ہے۔
حضرت سعید بن جبیرؒ حضرت ابن عباسؓ کے ساتھ سائے کی مانند چمٹے رہے۔ ان سے قرآن کریم، تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ اور لغت کا علم حاصل کیا اور ان علوم میں مکمل مہارت حاصل کی۔ یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے ان کو وہ علمی مقام عطا فرمایا کہ ان کے زمانے کا کوئی شخص ایسا نہ تھا جو ان کے علم کا محتاج نہ ہو۔ انہوں نے خود بھی حصول علم کیلئے مختلف ممالک کا سفر اختیار کیا۔
طالب علمی کے زمانے سے فارغ ہونے کے بعد شہر کوفہ کو اپنا وطن اقامت بنایا اور اہل کوفہ کے معلّم اور امام بن گئے۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ اپنی کتاب ’’دو شہید: حضرت سعید بن مسیّبؒ اور حضرت سعید بن جبیرؒ‘‘ میں لکھتے ہیں:
آپ ایک جلیل القدر تابعی ہیں، ہجرت نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام سے چھیالیس سال بعد آپ کی ولادت باسعادت ہوئی، وہ زمانہ بڑے بڑے صحابہ کرامؓ کے وجود سے معمور تھا۔ انہوں نے حضرت ابن عباسؓ، حضرت عدی بن حاتمؓ، حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابن مغفلؓ وغیرہم جیسے کبار (بڑے بڑے) صحابہ سے علم حاصل کیا۔
یوں تو آپ کے زمانہ میں صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت کے بہت سے حضرات موجود تھے، مگر تحصیل علم اور روایت حدیث، بکثرت دو ہی حضرات سے کی۔ حضرت ابن عمرؓ اور حبر الامۃ حضرت ابن عباسؓ سے۔ ان دونوں میں بھی آپ کے علوم کا بڑا حصہ حضرت ابن عباسؓ کے علوم کا پرتو (عکس) تھا۔ قرأت اور تفسیر قرآن خصوصیت کے ساتھ حضرت ابن عباسؓ سے حاصل کی تھی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭