کلکتہ کی مشہور نومسلم خاتون محترمہ جاوید بانو بیگم بنگال کے ایک ہندو راجہ کی صاحبزادی تھیں، اعلیٰ تعلیم کی حامل تھیں۔ انہوں نے کامل تحقیق کے بعد اسلام قبول کیا اور اس سلسلہ میں بہت سی تکلیفیں برداشت کیں۔ ذیل کی تقریر انہوں نے قبول اسلام کے بعد کلکتہ کے ایک جلسے میں کی:
برادران اسلام و خواہران دین! میں ایک نو مسلمہ ہوں اور میں ایک سچے اور عالمگیر مذہب اسلام کو پاکر بہت خوش ہوئی ہوں۔ میرا دل حقیقی خوشی سے لبریز ہے اور میری دلی آرزو ہے کہ میں ہر انسان سے جس تک میری رسائی ہو، اپنے آقائے نامدار محمد مصطفیٰؐ کے اعلیٰ اخلاق اور تعلیمات کا ذکر کروں۔
شاید آپ میرے تجربات کا مختصر خلاصہ جو مجھے تحقیق مذاہب کے سلسلہ میں پیش آئے، سن کر مسرور ہوں گے۔ میں ہندو والدین کے گھر پیدا ہوئی، مگر ہماری پرورش عیسائی اثر کے تحت ہوئی، ہندو مذہب کی مطلقاً کوئی واقفیت نہ تھی۔ میں نے 1924ء میں مذہب اور فلسفہ کا وسیع طور پر مطالعہ شروع کیا، میں ان کا مطالعہ عالم، فاضل بننے کے لئے نہ کرتی تھی، بلکہ تحقیق حق میرا منشا تھا۔ میرے دل میں خدا تعالیٰ کے ایک مخلص اور صادق بندے کی طرح عبادت کرنے کے تڑپ پیدا ہوئی تھی۔ میں نے بدھ مذہب کو سمجھنے کہ کوشش کی، لیکن ناکامی کا سامنا ہوا۔ عیسائیت کی طرف جو سمجھنے میں نہایت سیدھی سادی معلوم ہوئی رجوع کیا۔ اس سلسلے میں، میں نے عیسائی پادریوں سے رابطہ قائم کیا، تاہم مجھے کوئی ایسا راستہ نہ ملا، جس سے میں دور حاضر میں عیسائیت کی ایک مخلص اور صادق متبع بن سکوں۔ گو بڑے بڑے دلائل و براہین پیش کئے جاتے تھے، لیکن میں عیسائی گرجوں کی لاتعداد فرقہ بندیوں میں ذاتی اغراض اور شخصی مطلب کے سوا اور کچھ نہ دیکھ سکی اور بالکل ناامید ہوکر دوبارہ ہندو مذہب اختیار کر لیا۔ کیوں کہ ویدوں کا فلسفہ ایک ایسے دماغ کیلئے جو مذہب کی کمزوریوں سے مضطرب اور متنفر ہو چکا ہو، ایک کافی و شافی سہارا تھا۔ لیکن ویدوں کی فلاسفی بھلا ہندوؤں کیلئے کیسے مفید ہو سکتی ہے، کیوں کہ جہاں تک عملی زندگی اور حقائق کا تعلق ہے، ہندو منوجی مہاراج کے زمانہ سے لے کر آج ویدانت سے اتنے ہی دور ہیں، جتنا کہ اس فرضی مخلوق سے جس کا چاند میں ہونا عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ ویدوں کی پیروی کیلئے ایک ہندو پر لازم ہے کہ یا تو وہ موجودہ ہندو مذہب سے کنارہ کش ہو جائے یا تمدنی مصلح بن کر ان بے شمار فرقوں میں ایک اور فرقہ کا اضافہ کرے، جس کے اندر زمانۂ حال میں ہندوستان ڈوبا جا رہا ہے۔ ہندوؤں کی حالت قابل رحم ہے، بڑی خامیاں اور نقائص روزافزوں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ان پر دوسروے مذاہب کے پیرو تبصرہ نہیں کرتے، بلکہ ہندو خود ان کو آشکار کرتے رہتے ہیں۔ مجلس قوانین کے ذریعہ بیوگان کی شادی کو جائز کیوں قرار دیا گیا ہے؟ سلطنت برطانیہ کے ایک قانون کے تحت رسم ستی کو کیوں روکا گیا؟ تمام تمدنی اصلاحات کو مجالس قوانین ساز کے ذریعے کیوں دائرئہ عمل میں لایا جاتا ہے؟ اس مذہب کا فائدہ ہی کیا جو دماغی نشونما اور تمدنی اصلاحات کو دوسری تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے سے عاجز ہے؟
مندرجہ بالا حقائق سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ مجھے سچے مذہب اسلام کو قبول کرنے میں کتنی خوشی ہوئی ہوگی۔ اسلام کے علاوہ اور کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں جس کے عقائد کو اس کے پیرو ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ آخرکار میں نے صداقت کو پالیا، میں بہت خوش ہوں اور میری روح مطمئن ہے۔ کیا ہم آج کسی ایسی مذہبی یا تمدنی اصلاح کے درپے ہیں، جس کی تائید قرآن پاک سے نہیں ہو سکتی؟ کیا ہمارے آقائے نامدار محمد مصطفیؐ تمام روحانی رہنماؤں میں ایک ایسی شخصیت نہیں، جنہوں نے آزادی، اخوت و مساوات کے ایسے زریں اعمال بتائے ہیں، جن کے ذریعے ہم صراط مستقیم پر چل کر نجات حاصل کر سکتے ہیں؟ صرف اسلام ہی دنیا میں ایک ایسا مذہب ہے، جو روزمرہ کی زندگی میں ہمارا سچا رہنما ہو سکتا ہے۔ اسلام تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی ہونے کا سبق دیتا ہے، خواہ کسی قومیت اور کسی ملک کے ہوں اور ان کی کوئی زبان ہو۔
کیا دنیا کسی مذہب کی الہامی کتاب اپنی فراخدلی اور فیاضی پر ناز کرسکتی ہے، سوائے ہمارے قرآن کریم کے۔ جس میں ہر ایک مسلمان کو کہا گیا ہے کہ ان کیلئے تمام پیغمبروں پر ایمان لانا ضروری ہے؟ صرف اسلام ہی انصاف و انسانیت اور آزادی کا مذہب ہے، جس کی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ ہمیں اسلامی اصولوں کے تحت جائیداد پر قابض ہونے کیلئے کونسل و قانون کے دروازے کھٹکھٹانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ وہ تمام قوانین قرآن کریم میں ہم مسلمانوں کیلئے اتارے گئے تھے۔ آج کل مذاہب عالم جس کا مقصد کو اپنا نصب العین بنا کر اخلاقی اور تمدنی، معاشرتی فوائد کیلئے سرگرداں ہیں، وہ تمام فوائد مسلمانوں کیلئے جس دن سے قرآن مجید نازل ہوا، موجود ہیں۔
میرے لئے یہ بالکل ناممکن تھا کہ میں ایسے مذہب میں رہتی جو ہماری موجودہ اور روزمرہ زندگی سے کوسوں دور ہے۔ میں کس طرح ایک مخلص ہندو یا عیسائی ہو سکتی تھی، جبکہ انسانی اصول اور تہذیب مجھے ان مذاہب کی تعلیمات کے بالکل مخالف کھڑا کرتے ہیں۔ اگر کوئی مذہب ہمیں روزمرہ کی زندگی میں تسکین نہیں دے سکتا تو کیوں اسے مذہب کے نام سے موسوم کیا جائے۔ یقینا ایسے تمام مذاہب نامکمل ہیں۔ اگر ان میں ذرا بھر بھی صداقت موجود تھی تو وہ بھی اب زمانہ سے مفقود ہوئی جاتی ہے۔ میں نے اس صورت حال کو محسوس کیا اور اس پر غورکیا تو میرے لئے اسلام قبول کرنا ضروری ہوگیا، کیوں کہ میں نے اس میں تمام صداقتیں دیکھ لیں۔
اسلام میں وہ ہر ایک بات پائی جاتی ہے جس کے دوسرے تمام مذاہب کے پیرو متلاشی ہیں۔ اسلام میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں یقین واثق سے کہتی ہوں کہ کوئی دوسرا مذہب اصلاح اور خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا، سوائے اسلام کے جو خدا کی سچی محبت، انسانیت کی سچی الفت اور حقانیت پر مبنی ہے۔ اسلام کو کسی کی ترمیم کی ضرورت نہیں، اسلام کے بنیادی اصول وحدانیت، حقانیت اور اخوت و مساوات بے حد معقول، مؤثر، مفید اور فطری ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭