خلاصہ تفسیر
انہوں (بنو نضیر) نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ ان کے قلعے ان کو خدا (کے انتقام) سے بچالیں گے۔ (یعنی اپنے قلعوں کے استحکام پر ایسے مطمئن تھے کہ ان کے دل میں انتقام غیبی کا خطرہ بھی نہ آتا تھا، پس ان کی حالت مشابہ اس شخص کے تھی جس کایہ گمان ہو کہ ان کے قلعے خدا کی گرفت سے بچالیں گے اور اگر خاص بنونضیر کے قلعے متعدد نہ ہو حصونھم جمع کی ضمیر مطلق یہود کی طرف ہوگی اور انھم کی ضمیر بھی اور صرف ظنوا کی ضمیر بنو نضیر کی طرف ہو جائے گی، یعنی بنونضیر کا یہ خیال تھا کہ سب یہود کو ان کے قلعے حوادث سے بچالیں گے، ان سب یہود میں یہ بھی آگئے کہ اپنے قلعے کو اپنا محافظ سمجھتے تھے) سو ان پر خدا (کا عذاب) ایسی جگہ سے پہنچا کہ ان کو خیال (اور گمان) بھی نہ تھا (مراد اس جگہ سے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں نکالے گئے، جن کی بے سروسامانی پر نظر کرکے اس کا احتمال نہ تھا کہ یہ بے سامان ان با سامانوں پر غالب آجائیں گے) اور ان کے دلوں میں (حق تعالیٰ نے مسلمانوں کا) رعب ڈال دیا کہ(اس رعب کی وجہ سے نکلنے کا قصد کیا اور اس وقت یہ حالت تھی کہ) اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے بھی اجاڑ رہے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭