امین امتؓ کی آزمائش

محمد بن جعفر نے بیان کیا ہے کہ ایک بار نصاریٰ کا ایک وفد رسول اکرمؐ کی خدمت میں باریاب ہوا اور اس نے آپؐ سے درخواست کی کہ ’’ابوالقاسم! آپ ہمارے ساتھ اپنے اصحاب میں سے کسی ایسے شخص کو بھیجئے، جس کو آپؐ ہمارے لیے پسند کرتے ہوں تاکہ وہ ہمارے درمیان ان جائیدادوں کا فیصلہ کرے، جن کے بارے میں ہمارے اندر اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔‘‘ تو رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ ’’تم دن کے وقت مجھ سے ملو۔ میں تمہارے ساتھ ایک قوی امین کو روانہ کروں گا۔‘‘
حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں ظہر کی نماز کے لیے بہت سویرے پہنچا۔ اس روز کی طرح میرے دل میں امارت کی کبھی خواہش نہیں پیدا ہوئی تھی اور امارت کی یہ خواہش میرے دل میں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ ممکن ہے رسول اکرمؐ کے بیان کردہ وصف کا میں ہی مصداق ٹھہروں۔ جب رسول اقدسؐ نماز سے فارغ ہو کر اپنے دائیں بائیں دیکھنے لگے تو میں اچک اچک کر خود کو نمایاں کرنے لگا تاکہ آپؐ کی نظر میرے اوپر پڑ سکے، لیکن آپؐ میری طرف متوجہ ہونے کے بجائے اپنی نگاہوں کو مجمع کے درمیان گردش دیتے رہے، یہاں تک کہ آپؐ کی متجسس نظریں ابو عبیدہؓ ابن جراح پر جاکر ٹک گئیں۔ آپؐ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور اہل وفد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’ان کے ساتھ جائو اور ان کے درمیان پیدا شدہ نزاعی معاملے کا برحق اور مبنی بر انصاف فیصلہ کر دو۔‘‘ یہ دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا: ’’ابوعبیدہؓ اس فضیلت کو لے اڑے۔‘‘
حضرت ابو عبیدہؓ صرف صفت امانت ہی سے متصف نہ تھے، وہ امانت داری کے ساتھ ساتھ زبردست قوت ایمانی کے مالک بھی تھے اور بہت سے مواقع پر ان کی اس قوت کا اظہار بھی ہو چکا تھا۔ اس بات کا اظہار خاص کر اس وقت ہوا تھا، جب رسول اکرمؐ نے صحابۂ کرامؓ کا ایک دستہ قریش کے تجارتی قافلے سے تعرض کرنے کے لئے روانہ فرمایا اور حضرت ابو عبیدہؓ کو اس کا امیر مقرر کیا تھا۔ روانگی کے وقت آپؐ نے کھجوروں سے بھری ہوئی ایک تھیلی ان کے حوالے کی تھی، انہیں زاد سفر کے طور پر دینے کے لئے اس وقت اس کے علاوہ دوسری کوئی چیز آپؐ کو میسر نہ تھی۔ حضرت ابو عبیدہؓ اپنے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو روزانہ ایک ایک کھجور دیتے اور ہر شخص اس کھجور کو اس طرح چوستا، جس طرح شیرخوار بچہ ماں کی چھاتیوں کو چوستا ہے اور اوپر سے پانی پی لیتا تھا اور یہی اس کی پورے ایک دن کی خوراک ہوتی تھی۔
آپؓ کی قوت ایمانی کا اظہار اس وقت بھی ہوا تھا جب غزوئہ احد کے موقع پر مسلمانوں کو شکست اور ان کے میدان چھوڑ کر بھاگ جانے کے بعد مشرکین پیہم آوازیں لگا رہے تھے: ’’ہمیں بتائو! محمد کہاں ہیں؟ بتائو ہمیں کہاں ہیں محمد؟‘‘ تو حضرت ابو عبیدہؓ ان دس افراد میں سے ایک تھے، جنہوں
نے رسول اکرمؐ کی حفاظت کے لئے آپؐ کو چاروں طرف سے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، تاکہ آپؐ کی طرف بڑھنے والے مشرکین کے نیزوں کو اپنی سینوں پر روک لیں۔
جنگ ختم ہوئی تو آپؐ کے سامنے کے دو دانت شہید ہو چکے تھے۔ پیشانی مبارک زخمی ہوگئی تھی اور رخسار مبارک میں خود کی کڑیاں چبھ گئی تھیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان کو رخسار مبارک سے نکالنا چاہا تو حضرت ابو عبیدہؓ نے انہیں قسم دے کر کہا کہ یہ کام آپ میرے لیے چھوڑ دیں اور انہوں نے چھوڑ دیا، تاکہ حضرت ابو عبیدہؓ یہ خدمت انجام دیں۔
حضرت ابو عبیدہؓ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر وہ ان کڑیوں کو ہاتھوں سے کھینچ کر نکالتے ہیں تو آپؐ کو تکلیف ہوگی۔ اس لیے انہوں نے ایک کڑی کو دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور زور لگا کر کھینچا تو وہ باہر آگئی، مگر ساتھ ہی ان کا ایک دانت بھی ٹوٹ گیا، پھر انہوں نے دوسری کڑی کو بھی اپنے دانتوں کی مضبوط گرفت میں لے کر زور لگایا، کڑی پیشانی مبارک سے نکل گئی، مگر ان کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ کہا کرتے تھے کہ ’’ابوعبیدہؓ ان لوگوں میں سب سے اچھے ہیں، جن کے آگے کے دانت ٹوٹے ہوئے ہیں۔‘‘
حضرت ابو عبیدہؓ شروع سے آخر تک تمام غزوات میں حضور اکرمؐ کے ہم رکاب رہے اور جب سقیفۂ بنی ساعدہ کا موقع آیا (جس موقع پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دست مبارک پر خلافت کی بیعت کی گئی تھی) تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے حضرت ابو عبیدہؓ سے کہا کہ ’’اپنا ہاتھ بڑھایئے، آپ کی بیعت کروں، اس لیے کہ میں نے رسول اکرمؐ کو آپ سے یہ کہتے سنا ہے کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور ہماری امت کے امین تم ہو۔‘‘
تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں اس شخص سے آگے بڑھنے کی جرأت کیسے کر سکتا ہوں، جس کو رسول اکرمؐ نے ہم مسلمانوں کا امام بنایا ہو اور آپؐ کی وفات تک وہ ہماری امامت کرتا رہا ہو۔‘‘ اور اس کے بعد جب حضرت ابو بکرؓ کے دست مبارک پر خلافت کی بیعت ہو گئی تو حضرت ابو عبیدہؓ حق و صداقت کے معاملے میں ان کے بہترین خیر خواہ اور خیروفلاح میں ان کے قابل اعتماد معاون ثابت ہوئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment