جو لوگ صوفیائے کرام کو گوشہ نشین، کم ہمت اور تن آسان سمجھتے ہیں، انہیں جان لینا چاہئے کہ صوفی سے زیادہ اولوالعزم کوئی دوسرا انسان نہیں ہوتا۔صوفیاء زندگی بھر اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے ہیں، جو دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔صوفی کی تعریف یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں تسبیح بھی ہوتی ہے اور شمشیر بھی۔ وہ حالت جمال میں اپنے نفس پر ’’کلمہ طیبہ‘‘ کی ضرب لگاتا ہے اور جلال کے عالم میں کفار کی شہ رگ پر ضرب نوک سناں۔ وہ بر سر منبر فصاحت و بلاغت کے دریا بھی بہاتا ہے اور سر مقتل اپنے خون میں نہاتا ہے۔ مشہور صوفی حضرت شیخ نجم الدین کبریٰؒ اور حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ معرکۂ حق اور باطل میں اس طرح شہید ہوئے کہ ان کی شمشیریں کفار کے خون سے رنگین تھیں۔
اس رسم ایمانی کو تازہ کرنے کیلئے ایک بار حضرت جنید بغدادیؒ کے دل میں بھی شوق جہاد پیدا ہوا۔ نتیجتاً آپؒ ہتھیاروں سے لیس ہو کر گھر سے نکلے اور لشکر اسلام میں شامل ہوگئے۔ ابھی یہ سفر جاری تھا کہ ایک دن آپؒ پر امیر لشکر کی نظر پڑی۔ حضرت جنید بغدادیؒ اپنے ظاہری لباس سے پریشاں حال نظر آرہے تھے۔ امیر لشکر نے مفلس ونادار سمجھ کر آپؒ کے لئے کچھ رقم بھیجی اور ہدایت کی کہ اس سے اپنے سفر کا خرچ پورا کریں۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے وہ رقم قبول کر لی اور پھر ان غازیوں میں تقسیم کر دی، جو بظاہر آپؒ سے بھی زیادہ محتاج نظر آ رہے تھے۔
اسلامی لشکر ایک مقام پر خیمہ زن ہوا اور لوگ ظہر کی نماز میں مشغول ہوئے۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے بھی نماز ادا کی اور سوچنے لگے کہ مجھے وہ رقم نہیں قبول کرنی چاہئے تھی اور اگر قبول کرلی تو اسے غازیوں میں نہیں تقسیم کرنا چاہئے تھا، کیونکہ جو بات مجھے پسند نہیں، وہ بات میں نے اپنے بھائیوں کیلئے کیوں پسند کی؟ ابھی حضرت جنید بغدادیؒ اسی غور و فکر میں تھے کہ ان کی آنکھ لگ گئی۔ آپؒ نے دیکھا کہ نظروں کے سامنے بہت عالیشان محل جگمگا رہے تھے۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے حیران ہو کر کہا: ’’خدا ہی جانتا ہے کہ یہ محلات زرنگار کس کے لئے ہیں؟‘‘
جواب میں ایک مرد غیب کی صدا سنائی دی: ’’یہ ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں تم نے وہ رقم دی تھی۔‘‘
’’میرے لئے بھی کچھ ہے؟‘‘ بے اختیار حضرت جنیدؒ کی زبان سے یہ بات نکل گئی۔
’’وہ سب سے اونچا اور دلکش محل تمہارا ہے۔‘‘ مرد غیب نے کہا۔
’’مجھے فضیلت کیوں دی گئی؟‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے پوچھا۔
جواب میں مرد غیب نے کہا: ’’وہ لوگ اس لئے ثواب کے حق دار ٹھہرے کہ انہوں نے مال خرچ کردیا اور تم اس لئے انعام کے مستحق قرار پائے کہ اپنے سے زیادہ ضرورت مند لوگوں میں مال تقسیم کردیا۔ پھر بھی تمہیں اپنے اس عمل پر ندامت تھی۔ آخر یہی ندامت بارگاہ ذوالجلال میں قبول ہوئی اور تمہارا ثواب دو گناہ کر دیا گیا۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ اس جہاد میں شریک ہوئے، مگر جنگ شروع ہونے سے پہلے جب امیر لشکر کو معلوم ہوا کہ آپ کون ہیں تو اس نے درخواست کرتے ہوئے کہا ’’شیخ! آپ واپس تشریف لے جائیں۔‘‘
حضرت جنید بغدادی ؒ نے حیران ہو کر امیر لشکر کی طرف دیکھا۔ امیر لشکر آپؒ کی استفہامیہ نظروں کا مفہوم سمجھ گیا تھا۔ اس نے بصد احترام عرض کیا: ’’آپ خانقاہ میں بیٹھ کر بھی انسانی معاشرے کی برائیوں کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔ یہ کام ہمارے لئے چھوڑ دیجئے۔‘‘
اس کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ واپس لوٹ آئے اور آخری سانس تک اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے رہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کے احباب میں ایک بزرگ حضرت جعفر بن نصیرؒ بھی شامل تھے۔ وہ آپؒ کی نفس کشی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ میں ایک دن جنیدؒ کی خدمت میں حاضر تھا، اچانک آپ مجھ سے مخاطب ہوئے: ’’ جعفر! آج میرا دل انجیر کھانے کو چاہ رہا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا’’شیخ! میں ابھی بازار جا کر انجیر لے کر آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا ’’اس طرح نہیں، پہلے پیسے لیتے جاؤ۔‘‘
میں نے عرض کیا ’’شیخ! مجھے کبھی تو اپنی خدمت کا موقع دیجئے۔ میرے پاس اتنے پیسے تو ہیں۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: پھر ایک درہم نکال کر مجھے دیا اور ہدایت کی ’’انجیر وزیری لے کر آنا۔‘‘(’’ وزیری‘‘ انجیروں کی ایک مخصوص اور اعلیٰ قسم ہے)
حضرت جعفر بن نصیرؒ بازار گئے اور انجیر لا کر حضرت شیخؒ کی خدمت میں پیش کر دیئے۔
پھر جب افطار کا وقت آیا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے ایک انجیر اٹھا کر منہ میں رکھا اور دوسرے ہی لمحے اسے نکال کر پھینک دیا، پھر حاضرین مجلس سے مخاطب ہو فرمایا: ’’انہیں میرے سامنے سے اٹھا کر لے جاؤ اور خواہش مندوں کی تواضع کرو۔‘‘
حضرت جعفر بن نصیرؒ نے جھجکتے ہوئے عرض کیا ’’شیخ! آپ نے اس قدر شوق سے انجیر منگوائے، پھر انہیں کھانے سے انکار کردیا، آخر اس کا کوئی خاص سبب؟‘‘
اپنے دوست کی بات سن کر حضرت جنید بغدادیؒ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر نہایت رقت آمیز لہجے میں فرمانے لگے’’ جب میں نے انجیر منہ میں رکھا تو ایک صدائے غیب سنائی دی: ’’جنید! تجھے شرم نہیں آتی، تو نے جس خواہش نفس کو میرے لئے چھوڑا، اس کے دام میں پھر گرفتار ہوا جاتا ہے۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭