میچز منتقلی اور ڈی ویلیئرز کی عدم دستیابی پر لاہور کے شائقین مایوس

محمد علی اظہر
میچز کی کراچی منتقلی اور جنوبی افریقہ کے اسٹار کھلاڑی ابراہم ڈی ویلیئرز کی عدم دستیابی نے لاہور کے شائقین کو مایوس کر دیا۔ واضح رہے کہ لاہور قلندرز کے شائقین صرف صوبہ پنجاب میں نہیں، بلکہ پورے پاکستان میں ہیں۔ جبکہ بیرون ملک بھی سب سے زیادہ ریٹنگ رانا فواد کی منفرد ٹیم کی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کے ابتدائی شیڈول میں لاہور قلندرز کے دو میچ لاہور میں رکھے تھے، جن میں سے ایک 9 مارچ کو اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف کھیلا جانا تھا۔ جبکہ دوسرا میچ 10 مارچ کو ملتان سلطانز کیخلاف شیڈولڈ تھا۔ اس کے بعد 12 مارچ کو ایک الیمنیٹر میچ بھی لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جانا تھا، جسے پی سی بی نے اتوار کے روز ناگزیر وجوہات کی بنا پر لاہور سے کراچی منتقل کرنے کا مشکل فیصلہ کیا۔ فیصلے پر لاہور کے شائقین نے جہاں مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ وہیں کرکٹ کے متوالوں نے بورڈ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ پی سی بی ملک میں کرکٹ کی مکمل بحالی کیلئے جو بہتر سمجھے وہی کرنا چاہئے۔ شائقین نے کہا کہ انہوں نے ملکی و غیر ملکی کھلاڑیوں کو داتا کی نگری میں خوش آمدید کہنے کیلئے خصوصی تیاریاں کر رکھی تھیں۔ میچ کے ٹکٹ کے ساتھ تصاویر بناکر سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کی تھیں۔ لیکن اب لاہور میں پی ایس ایل میلہ انجوائے نہیں کر سکیں گے۔ دوسری جانب پاکستان سپر لیگ کے لاہور میں شیڈول میچز کی ٹکٹوں کی واپسی کا آغاز 18 مارچ سے ہوگا۔ پی ایس ایل فور کے لاہور میں ہونے والے میچز اب کراچی میں ہوں گے، میچز کیلئے ٹکٹس خریدنے والوں کو اب پوری رقم واپس کی جائے گی۔ پی سی بی ترجمان کا کہنا ہے کہ کوریئر کمپنی کے سینٹرز سے ٹکٹ خریدنے والے 18 مارچ کو سینٹر پر جا کر پیسے واپس لے سکتے ہیں، جبکہ آن لائن ٹکٹ خریدنے والوں کی رقم ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی جائے گی۔ کراچی میں ہونے والے میچوں کے شیڈول میں معمولی ترمیم کے ساتھ، موجودہ ٹکٹ ہولڈرز اور اضافی میچز کے ٹکٹوں کی خریداری کیلئے کچھ تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ شائقین 7 مارچ کے ٹکٹس پر 11 مارچ کو دو میچ دیکھ سکیں گے۔ 11 مارچ کو لاہور قلندرز اور ملتان سلطانز، دوسری جانب کراچی کنگز اور پشاور زلمی میں مقابلہ ہوگا۔ 9 مارچ کے گروپ میچ اور 14 مارچ کے ایلیمنیٹر وَن کے ٹکٹس جلد دستیاب ہوں گے۔ ادھر لاہور قلندرز کے کپتان اے بی ڈی ویلیئرز انجری کے باعث پاکستان سپر لیگ سے باہر ہوگئے ہیں اور اب وہ کراچی کے میچز میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔ پاکستان سپر لیگ کے آخری مرحلے میں جہاں تمام ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل پر اپنی پوزیشن بہتر کرنے کی جنگ لڑیں گے، وہیں لاہور قلندرز، کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے درمیان فائنل فور میں رسائی کا مقابلہ بھی ہونا ہے۔ ایسے میں لاہور قلندرز کو اپنے کپتان محمد حفیظ کے بعد ایک اور کپتان سے بھی محروم ہونا پڑگیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق جنوبی افریقہ کے سابق کپتان اور لاہور قلندرز کی کپتانی کے فرائض انجام دینے والے جارح مزاج بلے باز اے بی ڈی ویلیئرز انجری کے باعث پی ایس ایل سے باہر ہوگئے ہیں اور یوں وہ ابوظہبی اور کراچی میں ہونے والے میچز میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔ واضح رہے کہ آج دوپہر 4 بجے لاہور قلندرز کا اہم میچ پشاور زلمی سے ابوظہبی کے شیخ زید اسٹیڈیم میں ہوگا۔ ایونٹ میں بقا کی جنگ جیتنے کیلئے لاہور قلندرز کو یہ میچ لازمی جیتنا ہوگا۔ اہم میچ میں ابراہم ڈی ویلیئرز کی عدم دستیابی کے باعث فخر زمان لاہور قلندرز کی کپتانی کے فرائض انجام دیں گے۔ اس حوالے سے جنوبی افریقی کھلاڑی کا کہنا تھا کہ پاکستانی شائقین کے سامنے نہ کھیلنے پر بہت مایوسی ہوئی۔ بدقسمتی سے ان کی کمر کی انجری کے باعث وہ کراچی میں شیڈول میچز میں شریک نہیں ہوسکیں گے۔ انہیں ڈاکٹرز نے 2 ہفتہ آرام کا مشورہ دیا ہے۔ لہذا میں باقی میچز میں شریک نہیں ہوں گے۔ البتہ ان کی نیک خواہشات لاہور قلندرز کے ساتھ ہیں اور میں آئندہ برس پاکستان ضرور آئیں گے اور وہاں بین القوامی کرکٹ کی واپسی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ڈی ویلیئرز کی عدم دستیابی کے حوالے سے لاہور قلندرز کے منیجر ثمین رانا نے کہا کہ اے بی ڈی ویلیئرز کا کمر کی انجری کے باعث پی ایس ایل سے باہر ہونا بری خبر ہے اور پاکستان نہ آنا لاہور قلندرز کے مداحوں کیلئے مایوس کن ہے۔ فرنچائز ان کی جلد صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں۔ ذرائع کے مطابق پروٹیز اسٹار بیٹسمین کا لاہور قلندرز کی جانب سے 7 میچز کھیلنے کا معاہدہ تھا، وہ یو اے ای میں اپنے کنٹریکٹ کے مطابق میچز کھیلنے کے بعد دبئی سے رخصت ہوگئے تھے۔ تاہم پی سی بی اور لاہور قلندرز کی جانب سے خصوصی دعوت پر انہوں نے پاکستان میں میچز کھیلنے کیلیے حامی بھرلی تھی۔ واضح رہے اس سے قبل لاہور قلندرز کے کپتان محمد حفیظ بھی انگوٹھے کی انجری کے باعث پاکستان سپر لیگ سے باہر ہوچکے ہیں، جس کے باعث ایونٹ میں لاہور قلندرز کی کامیابی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment