سرفروش

عباس ثاقب
وہ ٹکٹ کی پرچی مجھے دے کر مجھ سے وصول کی ہوئی رقم دراز میں رکھ ہی رہا تھا کہ کلین شیو مشٹنڈے نے بھی پوچھ لیا۔ ’’اس کے علاوہ بھی کوئی قریب اترنے والا مسافر ہے؟‘‘۔
کلرک نے ہاں میں سر ہلاکر کہا۔ ’’ایک اور سواری کرتار پورکی ہے۔ سوا گھنٹے کا سفر ہے‘‘۔
اسے جواب ملا۔ ’’مجھے پتا ہے، سوا نہیں ڈیڑھ گھنٹا لگ جاتا ہے۔ لیکن تم ٹکٹ دے دو۔ میرا اسی بس سے جانا ضروری ہے۔ نام چاہیے تو اسوتوش گوسوامی لکھ لو‘‘۔
تاہم ٹکٹ کلرک اتنی تفصیل میں جانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس نے ٹکٹ پھاڑ کر گوسوامی کے حوالے کیا اور پھر میز پر مشتمل اپنا دفتر کم از کم وقتی طور پر بند کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس دوران میں بس کی طرف قدم بڑھا چکا تھا۔ میں نے ٹکٹ دکھایا توکنڈکٹر نے سر ہلا کر مجھے بس میں سوار ہونے کی اجازت دے دی۔ بس واقعی پوری طرح بھری ہوئی تھی۔ میں درمیان سے ذرا آگے بس کا ڈنڈا تھام کر کھڑا ہوگیا۔ کچھ ہی دیر میں گوسوامی بھی بس میں سوار ہوا اور میرے پاس ہی آکر کھڑا ہوگیا۔ چند منٹ بعد کنڈکٹر نے ڈرائیورکو بس چلانے کا اشارہ دے دیا۔
کچھ دیر بعد بس شہر کی حدود سے نکل کر ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان بچھی کشادہ سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ میں پہچان چکا تھا کہ یہ جی ٹی روڈ ہی ہے، جس پر ٹریکٹر کے ذریعے سفر کر کے میں سکھبیر کے ساتھ امرتسر پہنچا تھا۔ اس وقت دریائے بیاس کے پل سے امرتسر پہنچنے میں ہمیں ڈیڑھ گھنٹا لگا تھا۔ لیکن بس کی رفتار بتا رہی تھی کہ ہم واقعی اس سے نصف وقت میں وہاں پہنچ جاتے، جس کے بعد مجھے سیٹ مل جاتی۔
میری نظریں سڑک پر تھیں کہ میں نے گوسوامی کو دوستانہ لہجے میں کہتے سنا۔ ’’بھگوان کا شکر ہے، سردی کا زور اب کم ہونے لگا ہے۔ کچھ دن بعد چادر اور کوٹ وغیرہ کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔
مجھے پتا تھا کہ موسم کے حال پر تبصرہ دنیا بھر میں گفتگو شروع کرنے کا سب سے معروف طریقہ ہے۔ لیکن مجھے ساتھ میں چادر کا ذکر کھٹکا۔ اس کا کہنا غلط نہیں تھا۔ چمک دار دھوپ میں دن کا سفر درپیش ہونے کی وجہ سے بس میں سوار بہت کم سواریوں نے چادر وغیرہ میں ملفوف ہونا ضروری سمجھا تھا۔ البتہ گوسوامی نے کرتے پاجامے پر موٹے اونی کپڑے کا کوٹ پہن رکھا تھا۔ لہٰذا میں نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے ہلکے سے شک پر توجہ نہیں دی۔ البتہ جواب میں محض ہاں میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
گوسوامی شاید باتوں کا کچھ زیادہ ہی شوقین تھا۔ میری طرف سے جواب نہ ملنے کے باوجود اس نے کچھ ہی دیر بعد ایک بار پھر مجھے مخاطب کیا۔ ’’یہ بس مجھے ہمیشہ بھری ہوئی ہی ملتی ہے۔ پتا نہیں، روزانہ اتنے لوگ انبالے کیا لینے جاتے ہیں؟‘‘۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی بول پڑا۔ ’’وہی لینے جاتے ہیں، جو آپ لینے جارہے ہیں‘‘۔ میں اپنے لہجے میں طنز کی جھلک تو پوشیدہ نہ رکھ سکا۔ البتہ میں نے پنجابی ہی میں یہ جملہ کسا تھا۔ اس نے شرمندہ ہونے کے بجائے کہا۔ ’’میرا تو مہینے دو مہینے میں ایک آدھ ہی چکر لگتا ہے، وہ بھی ریل کے ذریعے۔ آج تو ایمرجنسی میں جانا پڑ رہا ہے۔ تار آیا ہے کہ میرا چچا زاد بھائی چھت سے گر پڑا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اوہ ، سن کر افسوس ہوا۔ واہگرو اس کی رکھوالی کرے‘‘۔
اس نے میرا شکریہ ادا کیا اورکہا۔ ’’اچھا ہے، آپ کو جلدی سیٹ مل جائے گی۔ ورنہ اتنی دیر کھڑے کھڑے تو ٹانگیں ٹوٹ جاتیں۔ آپ کو بھی کوئی بہت ضروری کام ہوگا، جو یہ تکلیف جھیل رہے ہیں؟‘‘۔
اس کی طر ف سے خوامخواہ کریدنے کی یہ کوشش مجھے ناگوار گزری اور میں نے محض ہاں کہنے پر اکتفا کیا اور اسے مکمل طور پر نظر انداز کر کے بس کے سامنے اور میری طرف کی کھڑکیوں سے باہر تیزی سے بدلتے مناظر پر نظریں جما دیں۔ خدا خدا کر کے بس دریائے بیاس کے پل کے پاس پہنچی۔ میں نے وہاں اترنے والے بزرگ مسافر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ لیکن اتفاق سے وہ عین میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس نے پل سے کوئی دو فرلانگ پہلے ہی بس رکوالی اور اپنے سامان کی پوٹلی سنبھال کر اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے گوسوامی کو رسماً خالی ہونے والی سیٹ پر بیٹھنے کی دعوت دی اور اس کی طرف سے انکار پر خود بیٹھ گیا۔
میں بیٹھ کر اطمینان کا سانس بھی نہ لے پایا تھا کہ مجھ پر انکشاف ہوا کہ گوسوامی نام کی وہ بلا اب عین میرے سر پر کھڑی ہے۔ ’’آج کل تو بسوں میں سفر بھی مصیبت بن گیا ہے۔ جگہ جگہ پولیس ناکے لگا کر کھڑی ہوتی ہے۔ ان کے ہاتھ تو کچھ نہیں آتا۔ صرف مسافروں کو تنگ کرتے ہیں۔ شکر ہے ان کی ساری توجہ چھوٹی گاڑیوں میں سوار جوان چھوکروں پر ہوتی ہے۔ بسوں میں تو رسمی نظر ڈالنے کیلئے چڑھتے ہیں‘‘۔
ا س کی بات سن کر میں چونکا۔ تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ بس دریائے بیاس کے پل سے ذرا پہلے لگائے گئے پولیس کے ناکے پر رک چکی ہے۔ میں نے ایک سنتری کو بس میں چڑھتے دیکھا۔ وہ بس کے مسافروں پر سرسری نظر ڈالتا ہوا آگے بڑھا۔ ہمارے پاس پہنچ کر وہ کچھ ٹھٹکا اور پھر اس نے سخت لہجے میں پوچھا۔ ’’نام بتاؤ اپنا… کہاں جارہے ہو تم ؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment