مالک سمیت شاہین ایئرلائنز کے 5 عہدیدار ٹیکس چور قرار

عمران خان
کلیکٹوریٹآف کسٹم ایڈجیوڈیکیشن ون کی جانب سے شاہین ایئر انٹرنیشنل کے مالک سمیت 5 عہدیداروں کو 4 ارب 14کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ایئر پورٹ کسٹم کلیکٹوریٹ کو کمپنی سے ریکوری کیلئے ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ ٹیکس چوری اور فراڈ کے اس میگا کیس پر کسٹم ایڈجیوڈی کیشن ون کے کلکٹر آصف مرغوب کی جانب سے گزشتہ دنوں تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق شاہین ایئر کے مالک اور عہدیداروں کی جانب سے کمپنی کے اثاثے فروخت کرکے بیرون ملک چلے جانے کی اطلاعات پر کسٹم حکام نے کراچی ایئر پورٹ پر موجود کمپنی کے نصف درجن طیاروں کو ضبط کرنے کے حوالے سے بھی غور شروع کردیا ہے۔
کسٹم ذرائع سے حاصل ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ شاہین ایئر انٹر نیشنل کے خلاف مذکورہ کیس کلکٹوریٹ پریونٹو کے ایئر پورٹ فریٹ یونٹ کی جانب سے 2014ء میں بنایا گیا تھا۔ جس کے بعد اس کیس پر کسٹم ایڈجیوڈی کیشن ون میں 2014ء میں پہلی سماعت ہونے کے بعد اس کیس پر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی تھی، جس کے 3 برس بعد یعنی 2018ء میں اس کیس پر مزید نو سماعتیں ہوئیں۔ جس کے بعد کمپنی کے چیئرمین احسان خالد، چیف ایگزیکٹو آفیسر کاشف خالد صہبائی، ڈائریکٹر پروکیورنمنٹ اینڈ لاجسٹک سید یوسف، ڈائریکٹر ایئر لائن آپریشنز فیصل رفیق کے علاوہ اسکریپ ڈیلرز الطاف اور بشارت کے خلاف فیصلہ سنایا گیا۔ کیس کے مندرجات کے مطابق کمپنی نے لیز ایگریمنٹ پر مجموعی طور پر 47 ہوائی جہاز منگوائے اور ان میں سے 12 جہازوں کو معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کر اسکریپ کی شکل میں فروخت کردیا گیا۔ اسی معاہدے کی خلاف ورزی سے کسٹم کے قوانین کے تحت ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے کو 4 ارب 14 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا جس کیلئے جعلسازی سے کام لیا گیا۔
دستاویزات کے مطابق یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کسٹم پریونٹو کے ایئر فریٹ یونٹ کے حکام کو اطلاع ملی کہ شاہین ایئر لائن کے عارضی امپورٹ کے تحت لیز ایگریمنٹ پر منگوائے گئے 47 طیاروں میں سے 12 طیاروں کو کراچی ایئر پورٹ پر موجود شاہین ایئر لائن کے یارڈ میں کھڑا کرکے ان کے پرزے علیحدہ کئے جا رہے ہیں اور ان میں سے انجن بھی نکال لئے گئے ہیں۔ اس اطلاع پر جب کسٹم کی ٹیم یہاں پر پہنچی تو کسٹم حکام کو مذکورہ 12 طیارے جن میں رجسٹریشن نمبر AP-BIT، AP-BHA، AP-BJI، AP-BJH، AP-BIP، AP-BIR، AP-BIK، AP-BIS، AP-BIQ، AP-BHC، AP-BHB، AP-BIU شامل تھے، پرزوں کی شکل میں مل گئے۔ دستاویزات کے مطابق چونکہ یہ طیارے عارضی امپورٹ کے ایس آر او کے تحت کلیئر کروائے گئے اس لئے ان طیاروں کو بالکل اسی حالت میں ایکسپورٹ کیا جانا تھا، جس حالت میں انہی منگوایا گیا تھا تاہم کمپنی نے کسٹم حکام کو اطلاع دیئے بغیر ان طیاروں کی توڑ پھوڑ شروع کردی تھی۔ قوانین کے تحت ان طیاروں کو اسکریپ میں تبدیل کرنے یا فروخت کرنے سے قبل کمپنی کو کسٹم ایکٹ کی دفعہ 79 کے تحت کسٹم حکام سے اجازت لینا ضروری تھا، جس میں کسٹم حکام واجب الادا ڈیوٹی اور ٹیکس وصول کرکے اجازت دیتی ہے۔ اس سنگین خلاف ورزی پر کسٹم حکام کی جانب سے مزید تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ کمپنی کی جانب سے اسکریپ کے ڈیلرز کو فی طیارہ 15 لاکھ روپے کے عوض اسکریپ میں تبدیل کرنے کا سودا کیا گیا تھا۔ اور ان طیاروں کے انجن بھی علیحدہ کرکے رکھ دیئے تھے۔ تحقیقات کے بعد کسٹم حکام کی جانب سے کمپنی کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو آفیسر احسان خالد صہبائی اور کاشف خالد صہبائی کو کسٹم ایکٹ کی دفعہ 168 کے تحت نوٹس ارسال کئے گئے۔ تاہم اسی دوران دونوں نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی اور کسٹم کے اس کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری بھی حاصل کرلی تھی۔ کسٹم حکام کے مطابق اس دوران دونوں ملزمان کو تفتیش کیلئے طلب کیا گیا تاہم یہ پیش نہیں ہوئے۔
کسٹم کی تحقیقات میں مزید معلوم ہوا کہ شاہین ایئر انٹر نیشنل نے میسرز صدیق اعوان نامی کمپنی سے مذکورہ 12 طیاروں کے پرزے فروخت کرنے کیلئے نہ صرف معاہدہ کیا تھا بلکہ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ایئر پورٹ سکیورٹی فورس کے حکام سے یہ اجازت بھی حاصل کرلی تھی کہ 9 افراد پر مشتمل ٹیم اپنی گاڑیوں پر شاہین ایئر انٹر نیشنل سے اسکریپ ایئر پورٹ کی حدود سے باہر لے کر جائے گی۔
تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ صدیق اعوان کمپنی کے ساتھ جہازوں کی نیلامی کا سودا طے کرانے میں شاہین ایئر کے جن عہدیداروں نے مرکزی کردار ادا کیا ان میں ڈائریکٹر پروکیورنمنٹ اینڈ لاجسٹک سید یوسف، ڈائریکٹر ایئر لائن آپریشنز فیصل رفیق شامل تھے۔ تاہم ان کے ساتھ ہی تحقیقات میں کسٹم کے پوسٹ آڈٹ سیکشن کے حکام کی ملی بھگت کے حوالے سے بھی کردار کا جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ اس پورے عرصے کے دوران نہ تو کمپنی کا انٹرنل آڈٹ کیا گیا اور نہ ہی کسٹم حکام نے اس ضمن میں کوئی آڈٹ کیا تھا، جبکہ قوانین کے تحت عارضی امپورٹ ایس آر او کے تحت کلیئر ہونے والے سامان کے آڈٹ کے حوالے سے کسٹم حکام کی جانب سے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
کسٹم ایڈجیوڈی کیشن ون کے کلکٹر آصف مرغوب صدیقی کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں کسٹم ایئر پورٹ کلکٹوریٹ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ کمپنی سے کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں 4 ارب 14 کروڑ روپے وصول کرنے کے علاوہ پانچوں ملزمان پر عائد 10 کروڑ روپے جرمانے کی رقم بھی وصول کی جائے اس ضمن میں ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کمپنی کے مالکان اور عہدیداروں کی جانب سے کمپنی کے اثاثے فروخت کئے جانے اور بیرون ملک چلے جانے کی اطلاعات پر کسٹم حکام نے کراچی ایئر پورٹ پر موجود کمپنی کے نصف درجن طیاروں کو ضبط کرنے کے حوالے سے بھی غور شروع کردیا ہے، اس ضمن میں کمپنی کو نوٹس بھی ارسال کردئے گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment