بھارتی وزارت داخلہ بھی جماعت اسلامی کے فلاحی کاموں کی معترف

امت رپورٹ
بھارت کی وزارت داخلہ نے بھی جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کی فلاحی خدمات کا اعتراف کرلیا ہے۔ وزارت کی جانب سے ایک خط کے ذریعے حکومت جموں و کشمیر سے کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی کے تعلیمی اداروں، مسافر خانوں، اسکولوں اور یتیم خانوں کو پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کیخلاف آپریشن جاری ہے اور اب تک چار سو سے زائد رہنمائوں و کارکنوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ جبکہ تمام دفاتر سیل کردیئے گئے ہیں۔
جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد انتہائی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ کیونکہ بھارتی وزارت داخلہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کو ایک خط لکھ کر ہدایت کی ہے کہ وہ بے شک جماعت اسلامی پر پابندی لگائے اور اس کو سیاسی و تنظیمی سرگرمیاں نہ کرنے دے۔ لیکن جماعت اسلامی کی فلاحی سرگرمیوں پر قدغن نہ لگائی جائے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق ریاستی انتظامیہ کو بھارتی وزارت داخلہ کا مذکورہ خط ملنے کے بعد جماعت اسلامی کو مقبوضہ وادی میں فلاحی سرگرمیوں کی اجازت جلد ملنے کی توقع ہے۔ کشمیر کے خبر رساں ادارے یو این آئی نے بھی تصدیق کی ہے کہ جموں و کشمیر حکومت نے جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے زیر نگرانی چلنے والے تعلیمی اداروں، مساجد اور یتیم خانوں کو پابندی سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے ذیلی ادارے ’’فلاح عام ٹرسٹ‘‘ کے زیر نگرانی چلنے والے تعلیمی اداروں کے سابق طلبہ، اس وقت دنیا کے مختلف کونوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز حکومت ہند اور حکومت جموں وکشمیر کے نام ایک کھلا خط تحریر کیا، جس میں تعلیمی اداروں کو پابندی سے مستثنیٰ قرار دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی گزشتہ روز سری نگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ جماعت اسلامی ایک سماجی اور فلاحی تنظیم ہے، جو سینکڑوں تعلیمی ادارے چلاکر کشمیری بچوں کا مستقبل سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے اسکولوں سے پوزیشن ہولڈر بچے نکلتے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت نے جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر پانچ سال کیلئے پابندی عائد کی ہے۔ تاہم اس اقدام کی مقبوضہ وادی کی تقریباً تمام سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں نے مذمت کی ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر نے مرکزی حکومت کی طرف سے 5 سالہ پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری طرف گزشتہ ایک ہفتے سے ریاست بھر میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون جاری ہے۔ اب تک جماعت اسلامی کے 400 کے قریب رہنمائوں اور کارکنوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔ جماعت کی تمام املاک سمیت رہنمائوں اور سرگرم کارکنوں کے گھروں کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے بینک اکائونٹس کو بھی سیز کردیا گیا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ریاست میں ضلعی مجسٹریٹس نے جماعت اسلامی کے لیڈروں کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادوں کی فہرستیں بھی طلب کی ہیں اور جماعت کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ 71 برس کے دوران جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر تیسری مرتبہ پابندی لگائی گئی ہے۔ پہلی مرتبہ اس پر 1975ء میں دو سال کے لیے پابندی لگی۔ یہ اندرا گاندھی کے دور میں ایمرجنسی کا زمانہ تھا۔ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو 1980ء میں دوسری مرتبہ تین سال کیلئے ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ ذرائع کے بقول مقبوضہ کمشیر میں جماعت اسلامی کو حریت کانفرنس کا موجد قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حریت کانفرنس پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر حریت کوئی خطرناک تنظیم ہے تو جب بھی گفت و شنید کے ذریعہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سرکاری و غیر سرکاری نمائندے حریت کانفرنس کے رہنمائوں سے گفتگو کیوں کرتے ہیں؟
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment