جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے خلاف کریک ڈائون اور آپریشن اب بھی جاری ہے۔ اب تک جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض سمیت دیگر قائدین اور بائیس اضلاع میں بیس کے ضلعی و تحصیل سطح کے عہدیداروں سمیت تین سو سے زائد کارکنان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان اضلاع میں جماعت کے تمام دفاتر بھی سیل کر دیئے گئے ہیں۔ جماعت کے امیر عبدالحمید فیاض اور دیگر مرکزی قائدین کے گھر بھی خالی کراکے انہیں سیل کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ جماعت اسلامی کے کسی رہنما کے خلاف گزشتہ دس برسوں میں نہ کوئی مقدمہ درج ہوا ہے اور نہ ہی کسی سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس پابندی اور ظالمانہ آپریشن کے بعد جماعت اسلامی اور اس کے ذیلی ادارے فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے چھ سو سے زائد اسکولوں میں زیر تعلیم ایک لاکھ سے زائد بچوں کا مستقبل بھی خطرے میں پڑگیا ہے۔ جبکہ سینکڑوں یتیم خانوں میں ہزاروں بچوں اور دیگر افراد کی زندگی بھی اجیرن ہونے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ مودی سرکار کی جانب سے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پانچ سالہ پابندی عائد کرتے ہوئے اس پر علیحدگی پسندوں سے روابط کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تاہم دوسری جانب اس پابندی کے خلاف جماعت اسلامی نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی کے وکلا نے اس سلسلے میں رٹ تیار کرنے کے لئے باہمی مشاورت شروع کر دی ہے۔ جماعت اسلامی کی اولین ترجیح تعلیمی اداروں اور یتیم خانوں پر پابندی کا خاتمہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے زیر انتظام چلنے والے چھ سو سے زائد اسکولز جموں و کشمیر ایجوکیشن بورڈ سے منظور شدہ ہیں اور ان میں منظور شدہ کورس پڑھایا جاتا ہے۔ دس ہزار سے زائد اساتذہ ان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے تھے۔ لیکن اب یہ سلسلہ وقتی طور پر منقطع ہو گیا ہے۔ ان اسکولز کے علاوہ پانچ سو مساجد اور سینکڑوں کی تعداد میں یتیم خانے بھی فلاح عام ٹرسٹ کی نگرانی میں ہزاروں ضرورت مندوں کی کفالت اور تعلیم کا انتظام کر رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو حاصل معلومات کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے بائیس میں سے صرف دو اضلاع اودھم پورہ اور کٹھوا ایسے ہیں، جہاں جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈائون یا آپریشن نہیں کیا گیا۔ جبکہ پونچھ، شوپیاں، گاندربل، کپواڑہ، گلگام، بانڈی پورہ، لیہ، ڈوڈہ، راجوری، کارگل، انبان، کشتواڑ، سری نگر، پلوامہ، بارہ مولا، اننت ناگ، ہندواڑہ بڈگام اور کپواڑہ میں جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاؤن اور آپریشن اب تک جاری ہے۔ بائیس فروری کو جماعت اسلامی کے مرکزی امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فہیم محمد، ترجمان زاہد علی ایڈووکیٹ، غلام قادر طور اور سابق سیکریٹری جنرل سمیت بڑی تعداد میں مرکزی عہدیداروں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اب جماعت پر پابندی کے بعد کریک ڈاؤن میں تمام ضلعی اور تحصیل سطح کے عہدیداروں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں فلاحی و تنظیمی سرگرمیوں میں مصروف کارکنوں کو بھی گرفتار کر کے تمام دفاتر کو سیل (SEAL) کر دیا گیا ہے۔ مرکزی امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اور سری نگر کے امیر بشیر احمد لون اور محمد شفیع ڈار سمیت کئی رہنماؤں کے اہل خانہ کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کے گھر بھی مقفل کر دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کی رات عبدالحمید فیاض کے گھر کے بارہ افراد نے رات کھلے آسمان تلے گزاری۔ ان کے بائیس سالہ ڈاکٹر بیٹے کے مطابق انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں رات گئے کسی قریبی رشتہ دار پر بوجھ بنیں اور کسی آزمائش سے دو چار کریں۔ سری نگر، کشتواڑ، اسلام آباد (اننت ناگ) کلگام، پلوامہ، بارہ مولا، بانڈی پورہ، کپواڑہ، گاندربل، شوپیاں، ہندواڑہ سمیت تمام مقامات پر دفاتر کو زبردستی بند کر کے سیل کر دیا گیا ہے۔ پلوامہ میں دفتر سیل کرنے کے موقع پر شدید تصادم ہوا اور نوجوانوں نے بھارتی سیکورٹی فورسز پر شدید پھتراؤ کیا۔ بعض مقامات پر دفاتر سے سیکورٹی اہکار چائے کا سامان اور دفاتر کے پر دے بھی اتار کر مقفل کرنے سے پہلے نکال کر لے گئے۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ذرائع کے مطابق جماعت پر دہشت گردوں سے روابط کے بے بنیاد الزام لگا کر پابندی لگائی گئی ہے۔ لیکن پابندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی ریاست کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 35-A کے تحت دی گئی خود مختاری کے خاتمے کے خلاف ہے۔ اس آرٹیکل کے خاتمے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر قوم پرست ہندو تنظیمں متحرک ہیں اور وہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کو بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں۔
جماعت اسلامی پر مقبوضہ کشمیر میں یہ تیسری مرتبہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ 1942ء میں کشمیر میں جماعت اسلامی کے قیام کے بعد 1953ء میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے جماعت اسلامی ہند سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا اور اپنے امیر کا انتخاب کے ذریعے چناؤ کر کے آزادانہ فیصلے کر رہی تھی۔ 1989ء میں جب آزادی کے لئے سرگرم نوجوانوں کی تنظیم حزب المجاہدین جماعت اسلامی کے عسکری ونگ کے طور پر سامنے آئی تو جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی، جو 1999ء میں اٹھائی گئی۔ دو قومی نظریے کے حامی اور تشدد کی مخالف جماعت اسلامی سماجی، مذہبی اور سیاسی تینوں شعبوں میں متحرک پارٹی کے طور پر کام کر رہی تھی۔ لیکن بھارتی حکومت نے صرف سماجی و مذہبی جماعت کے طور پر اس پر پابندی کا آرڈر جاری کر کے اسے محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق جماعت اسلامی اور اس کی رفاہی تنظیم فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے سینکڑوں اداروں میں سے اکثر کی عمارتیں اس کی اپنی ملکیت ہیں۔ ان اداروں میں بھاری مالیت کا روز مرہ استعمال کا سامان موجود ہے۔ ان اثاثوں کو ضبط کرنے کے علاوہ ان کے تمام بینک اکاؤنٹس، جو بالکل اوپن اور سرکاری اداروں کی نظر میں ہیں، وہ بھی منجمد کر دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کے بقول مقبوضہ کشمیر کی تقریباً ہر بستی میں فلاح عام ٹرسٹ کے زیر انتظام اسکول کام کر رہے ہیں، جن میں لاکھوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ پابندی کے بعد ان طلبا و طالبات کے مستقبل مخدوش ہو گیا ہے۔ یتیم خانوں میں رہائش پذیر ہزاروں بچوں کی زندگی بھی اس فیصلے سے اجیرن ہونے کا خدشہ ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ 90ء میں جب جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی تھی، تو اس وقت بھی ان اسکولوں اور یتیم خانوں میں موجود طلبہ اور نادار بچوں کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فلاح عام ٹرسٹ کا قیام 1989ء میں عمل میں آیا تھا۔ لیکن اس وقت یہ تنظیم اتنا متحرک نہیں تھی۔ اب جماعت اسلامی کی قیادت کو امید ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کر کے فلاح عام ٹرسٹ کی مدد سے ان چھ سو سے زائد اسکولوں اور دیگر اداروں کا انتظام حسب سابق رواں رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس مقصد کے لئے سری نگر میں وکلا کی ایک ٹیم نے مشاورت کا کام شروع کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اور دیگر قائدین کو سینٹرل جیل سری نگر میں قید رکھا گیا ہے۔ ابھی ان سے مشاورت کے لئے وکلا کی ملاقات نہیں ہو سکی ہے۔ ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالحمید ضیاض اس سے پہلے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ باسٹھ سالہ ڈاکٹر عبدالحمید کو گزشتہ سال اگست میں جماعت اسلامی کا امیر منتخب کیا گیا تھا۔
آل پاکستان حریت کانفرنس کے پاکستان میں کنوینر اور مرکزی رہنما غلام محمد صفی جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے رہنما رہ چکے ہیں۔ مقبوضہ وادی سے تعلق ہونے کی وجہ سے تمام امور سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اس سے پہلے بھی جماعت اسلامی پر دو دمرتبہ پابندی لگ چکی ہے اور اس وقت بھی قیادت اور کارکنوں نے قید و بند کی مصیبتیں برداشت کی تھیں۔ لاکھوں بچوں کا مستقبل تاریک کرنے کے لئے ان کے لئے قائم تعلیمی ادارے بھی بند کردیئے گئے ہیں۔ اس ساری کارروائی کا ایک مقصد کشمیریوں کی بڑی تعداد کو تعلیم سے بیگانہ کرنا بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو تعلیمی ادارے بند کئے گئے، ان میں کالجز بھی شامل ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں غلام محمد صفی کا کہنا تھا کہ ’’جماعت اسلامی کی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ بھارتی حکومت کے اس حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں وکلا نے مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے۔ بہت جلد عدالت سے رجوع کریں گے۔ اور امید ہے کہ انشاء اللہ کم از کم تعلیمی اداروں کی حد تک ریلیف مل جائے گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے دعوتی، تربیتی اور سماجی کام میں پہلے بھی مختلف بہانوں سے رکاوٹیں ڈالی جاتی رہی ہیں اور رکاوٹیں رہی ہیں۔ لیکن اب پابندی عائد کر کے تمام راستے بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماضی میں بھی جماعت اسلامی نے ان پابندیوں کے خلاف مزاحمت کی تھی اور حکومت کو یہ پابندیاں اٹھانا پڑی تھیں۔ اب بھی انشاء اللہ مودی حکومت کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا اور جماعت اسلامی پر عائد پانچ سالہ پابندی جلد ختم ہو جائے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں غلامی محمد صفی نے بتایا کہ ’’اس سے پہلے جب تعلیمی اداروں کی بندش ہوئی تھی تو عام لوگوں کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب بھی طلبا و طالبات کو شدید مشکلات پیش آئیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں اور یتیم خانوں پر پابندی کا خاتمہ جماعت اسلامی کی قیادت کی اولین ترجیح ہے۔
٭٭٭٭٭