امت رپورٹ
بھارت اگر پاکستان پر میزائل حملہ کرتا تو تین گنا زیادہ شدت سے اس کا جواب دینے کی تیاری کرلی گئی تھی۔ پیر کے روز حکومتی ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں یہ خبریں چلتی رہیں کہ بھارت اور اسرائیل مل کر پاکستان پر میزائل حملہ کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے چھ سے سات ہوائی اڈوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ تھا۔ تاہم پاکستان کی ٹاپ انٹیلی جنس ایجنسی کو اس پلان کی قبل از وقت اطلاع مل گئی۔ جس پر پاکستان نے عالمی برادری کے ذریعے مودی سرکار کو پیغام دیا کہ اگر حملہ کیا گیا تو اس کا جواب تین گنا زیادہ قوت سے دیا جائے گا۔ جس پر خوفزدہ بھارت کو اپنا منصوبہ منسوخ کرنا پڑا۔
قابل اعتماد سیکورٹی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو اس بھارتی گھنائونے منصوبے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ بھارتی دراندازی کے جواب میں پاکستان کی طرف سے دو انڈین لڑاکا طیارے گرائے جانے کے بعد دہلی میں جو اعلیٰ سیکورٹی اجلاس ہوا تھا، اس میں جوابی کارروائی کے طور پر پاکستان کے مختلف مقامات کو میزائل کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق 27 فروری کی رات نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم مودی کی رہائش گاہ پر ہونے والے اس اجلاس میں بھارتی آرمی، نیوی اور ایئرفورس کے سربراہوں کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال بھی موجود تھے۔ اجلاس ایک گھنٹے سے زائد وقت تک چلتا رہا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں کراچی، سیالکوٹ اور بہاولپور سمیت گیارہ سے بارہ مقامات پر میزائل حملے کے پلان کو آخری شکل دی گئی۔ تاہم ذرائع کے بقول جیسے ہی اجلاس یا بریفنگ ختم ہوئی، آئی ایس آئی کو بھارتی منصوبے کی انٹیلی جنس معلومات مل گئیں۔ ان معلومات کی فراہمی کے لئے ’’دوستوں‘‘ نے اہم رول ادا کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ بھارتی مذموم عزائم کا علم ہوتے ہی پاکستان نے جہاں ایک طرف جوابی کارروائی کے لئے فوری انتظامات کئے، وہیں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور آسٹریلیا سمیت دیگر اہم ممالک کی اہم شخصیات سے ہنگامی طور پر رابطہ کیا گیا۔ ان عالمی شخصیات کو باور کرایا گیا کہ بھارت کی طرف سے میزائل حملے کے پلان کی انٹیلی جنس معلومات پاکستان کو مل چکی ہیں۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور جنگ نہیں چاہتا۔ لیکن اگر بھارت نے حملے کے پلان پر عمل کیا تو اس کا تین گنا زیادہ قوت کے ساتھ جواب دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے جواب میں بھارت کے اندر 18 ٹارگٹ کا انتخاب کر لیا تھا۔ تاہم پاکستان کا پیغام ملتے ہی عالمی برادری میں کھلبلی مچ گئی اور یہ پیغام فوری طور پر بھارت کو پہنچانے کے ساتھ اس کے نتائج سے بھی آگاہ کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس انتباہی پیغام کے بعد بھارت کو پسپا ہونا پڑا۔ اور یوں خوفزدہ مودی سرکار نے اپنی تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے ساتھ مشاورت کرکے پاکستان پر میزائل حملوں کا منصوبہ ترک کر دیا۔ بھارت کو اس مس ایڈونچر سے روکنے میں امریکہ اور برطانیہ نے زیادہ رول ادا کیا۔ ذرائع کے مطابق بھارتی حملے کے منصوبے کے حوالے سے پاکستان کے لئے اٹھائیس فروری اور یکم مارچ کی راتیں بہت اہم تھیں۔ تاہم پاکستانی انتباہی پیغام اور جوابی حملے کی تیاری نے یہ خطرہ ٹال دیا۔ بعد ازاں تینوں مسلح بھارتی افواج کے اعلیٰ عہدیداروں کو باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اب جب تک پاکستان کی طرف سے مزید کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، بھارت بھی کسی مہم جوئی سے گریز کرے گا۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل، برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل نکولس اور آسٹریلوی چیف آف ڈیفنس فورسز جنرل انگوس کیمبل کے علاوہ اسلام آباد میں تعینات امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں سے ٹیلی فون پر کئے جانے والے رابطے اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ جس میں ان تمام کو نہ صرف بھارتی مذموم منصوبے سے آگاہ کیا گیا۔ بلکہ ساتھ ہی اس کے ردعمل کی تیاریوں سے بھی مطلع کیا گیا۔ جس کے بعد بھارت جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ذرائع کے مطابق ممکنہ بھارتی حملے کے جواب میں پاکستان نے بھارت میں جن 18 اہداف کا انتخاب کر رکھا تھا، سیکورٹی وجوہات پر ان کی تفصیل افشا نہیں کی جا سکتی۔ تاہم ان میں سے ایک ممکنہ ہدف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر بھی ہوسکتا تھا۔ یہ وہی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے، جسے 27 فروری کو پاکستان نے اپنے نشانے پر رکھنے کے باوجود ٹارگٹ نہیں کیا تھا۔ کیونکہ اس وقت بھارت کو صرف یہ باور کرانا تھا کہ پاکستان کسی بھی وقت اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، لیکن فی الحال دانستہ ایسا نہیں کر رہا۔ اس موقع پر پاکستان نے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر سمیت چھ انڈین فوجی تنصیبات کو نشانہ پر لینے کے باوجود چھوڑ دیا تھا اور محض خالی جگہوں پر بم گرائے اور میزائل مارے تھے۔ ذرائع نے اس حوالے سے بڑا دلچسپ انکشاف کیا کہ جب پاکستان کے میزائلوں نے بھارتی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کو اپنی رینج میں لیا تو اس وقت انڈین آرمی چیف جنرل بپن راوت وہاں موجود تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان سمیت پورا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پاکستانی میزائلوں کی رینج میں ہے تو بری طرح گھبراگئے تھے۔ بھارتی آرمی چیف کی اس بوکھلاہٹ کی ساری تفصیل پاکستان کے پاس موجود ہے۔ تاہم پاکستان نے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کو رینج میں لینے کے باوجود اس کے قریب خالی علاقے میں میزائل مارا اور یوں بھارتی آرمی چیف کی جان میں جان آئی۔
اس سارے معاملے پر ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے تصدیق کی کہ ممکنہ بھارتی حملے کی انٹیلی جنس اطلاع ملتے ہی پاکستان نے امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور دیگر اہم ممالک کے فوجی سربراہوں کو آگاہ کردیا تھا کہ اگر بھارت کی طرف سے میزائل فائر کئے جاتے ہیں تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کا تین گنا زیادہ قوت کے ساتھ پاکستان جواب نہ دے۔ جس پر ان ممالک نے بھارت کو مس ایڈونچر سے روکا اور کہا کہ اگر حملہ کیا گیا تو پاکستان کی طرف سے زیادہ شدت کے ساتھ ری ایکشن آئے گا۔ لہٰذا کیوں بربادی کی طرف جارہے ہو۔ جنرل امجد شعیب کے مطابق پاکستان نے انتباہ کے ساتھ اپنی امن کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن اس امن کی خواہش کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پاکستان خوف زدہ ہے۔ بلکہ بھارت سمیت عالمی برادری کو یہ باور کرانا تھا کہ دو ایٹمی قوتیں کبھی براہ راست جنگ نہیں کرتیں۔ اگرچہ مودی کو عقل نہیں، لیکن ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پاکستان دو ایٹمی قوتوں کے درمیان براہ راست جنگ کے ہولناک نتائج کو پوری طرح سمجھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں خطے کے خطے تباہ ہوجائیں گے۔ کیونکہ آج کے ایٹم بم، ہیرو شیما پر گرائے جانے والے ایٹم بموں سے کئی گناہ زیادہ طاقت ور ہیں۔ لہٰذا پاکستان چاہتا ہے کہ اس ہولناک جنگ کی نوبت نہ آئے اور خطے سمیت پوری دنیا میں امن رہے۔ لیکن اگر بھارت باز نہیں آیا تو پھر ہم ہر صورت جواب دیں گے۔ اس کے بعد معاملہ کہاں پہنچتا ہے۔ اس کے بارے میں عالمی برادری کو خود سوچنا چاہئے۔ جنرل امجد شعیب کے بقول یہ اس پیغام کا خلاصہ ہے، جو عالمی برادری کو دیا گیا تھا۔
معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ بالا کوٹ میں کی جانے والی کارروائی اور اب ممکنہ میزائل حملے کے پلان میں بھارت کے ساتھ اسرائیل کی شمولیت سے متعلق خبروں پر انہیں حیرانی نہیں۔ کیونکہ وہ اس گٹھ جوڑ کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ماضی میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کی جتنی بھی جعلی کارروائیاں ہوئیں، ان کی منصوبہ بندی سی آئی اے، موساد اور ’’را‘‘ نے مل کر کی تھی۔ تاہم یہ ابہام ابھی باقی ہے کہ ان حملوں کے لئے ان تینوں ایجنسیوں نے اپنی حکومتوں سے اجازت لی تھی یا نہیں۔ بریگیڈیئر آصف ہارون کے بقول امریکہ، بھارت اور اسرائیل تینوں اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بھارت نے 91ء میں امریکہ کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کی تھی۔ جبکہ اسرائیل کے ساتھ 1992ء میں یہ پارٹنر شپ کی گئی۔ تینوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا یہ گٹھ جوڑ نائن الیون کے بعد زیادہ مضبوط ہوا۔ کیونکہ اس واقعہ کے بعد تینوں کے مقاصد ایک ہوگئے تھے۔ ان میں سرفہرست مقصد پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنانا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کے بقول بھارت کا موجودہ جنگی جنون صرف مودی کی الیکشن جیتنے کے پلان تک محدود نہیں۔ بلکہ اس کھیل میں امریکہ اور اسرائیل دونوں شامل ہیں۔ مودی کی خواہش تو صرف یہ ہوسکتی ہے کہ وہ پاکستان سے تعلقات کو جنگ کی طرف لے جاکر الیکشن جیت لے۔ تاہم امریکہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کو پریشر میں لینا چاہتا ہے۔ کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود امریکہ تاحال طالبان کے ساتھ مرضی کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ جبکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ اس کی مرضی کا معاہدہ کرانے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا نہیں کر رہا۔ لہٰذا پاکستان کو پریشر میں لینے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ حالات کی سنگینی کو بھانپ کر امریکہ نے بھارت کو مس ایڈونچر سے روک دیا۔ ماضی میں بھی متعدد مواقع پر امریکہ یہی گیم کھیل چکا ہے۔ ہر بار پاکستان کے خلاف مہم جوئی کے لئے امریکہ ہی بھارت کو شہہ دیتا ہے اور ساتھ ہی یہ گارنٹی بھی دیتا ہے کہ اگر معاملات ہاتھ سے نکلے تو وہ ثالث بن کر دونوں کی صلح کرادے گا۔ ممبئی حملوں اور بھارتی پارلیمنٹ پر اٹیک کے بعد امریکہ نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا اور اب بھی اسی حکمت عملی کے تحت بھارت کو مزید مہم جوئی سے روکا ہے۔ کیونکہ اسے اندازہ ہوگیا کہ بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان بہت آگے نکل جائے گا۔
٭٭٭٭٭