سیدنا سعیدؒ کی تواضع اور علم:
سیدنا سعیدبن جبیرؒ کے تقویٰ و تواضع کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان سے درخواست کی کہ آپ قرآن کی ایک تفسیر لکھ دیجئے تو غضب ناک ہوکر فرمایا: کہ خدا کی قسم! میرے نزدیک اس سے یہ سہل ہے کہ میں ہلاک ہو جاؤں، کیوں کہ اس عظیم الشان کام کی میں اہلیت نہیں رکھتا۔
ایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ نے آپ سے فرمایا: کہ سعید! تم حدیث پڑھایا کرو، تو گھبرا کر فرمایا: کہ کیا ابن اُمّ دہما (ابن دہما سعید بن جبیر کی کنیت ہے) کی یہ مجال ہے کہ آپ کے کوفہ میں تشریف رکھتے ہوئے مسند حدیث پر قدم رکھ سکے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: کہ اے عزیز! یہ تمہاری خوش نصیبی ہے کہ تم ہمارے سامنے درس دو اور ہم تمہارے صواب کی تصویب اور خطاؤں کی اصلاح کیا کریں۔
حضرت سعید بن جبیرؒ فرماتے تھے: میں حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور علوم کے بیش بہا (قیمتی) جواہرات سے مالا مال ہوکر اٹھتا تھا۔
بعض مرتبہ تو یہ نوبت پہنچتی کہ میری بیاض (اوراق) اور صحائف آپ کی دریا کی طرح امنڈنے والی تقریر سے قاصر رہ جاتیں اور میں اپنے کپڑوں اور ہتھیلیوں کو لکھ لکھ کر چھاپ لیتا تھا۔
حضرت ابن عباسؓ جب نابینا ہوگئے تو (اس وقت) جب کوئی آپ سے مسئلہ پوچھتا تو آپ تعجب سے فرما دیا کرتے تھے کہ کیا ابن ام دہما کے ہوتے ہوئے مجھ سے مسئلہ پوچھتے ہو۔ (طبقات ابن سعد)
اسی طرح حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپؓ سے کوئی فرائض کا مسئلہ دریافت کیا گیا تو آپؓ نے ارشاد فرمایا:
سعید بن جبیرؒ کے پاس جاؤ کہ وہ حساب میں مجھ سے زیادہ عالم ہیں اور فرائض وہ بھی وہی بتلائیں گے جو میں بتلاتا۔
یہ واقعات درحقیقت آپ ؒکے دونوں استادوں کی جانب سے آپؒ کے لیے نیابت (یعنی نائب ہونے) کا پیغام اور صحیح قائم مقام ہونے پر مہر ہیں۔
کثرت عبادت کا حال
حضرت سعید بن جبیرؒ کی کثرت عبادت کا یہ حال تھا کہ وفاء بن ایاس فرماتے ہیں: ایک دن رمضان المبارک میں حضرت سعید بن جبیرؒ نے مجھ سے فرمایا: ذرا قرآن شریف ہاتھ میں لے کر میرا قرآن سن لو۔ میں سننے لگا، تو جب تک قرآن شریف ختم نہیں فرمایا، اپنی مجلس سے نہیں اٹھے۔ (ابن خلکان:1/288)
اور ظاہر ہے کہ حضرت سعیدؒ کا یہ ختم ہمارے زمانہ کا شبینہ نہ ہوگا، جس کی پرواز ہمارے گلوں سے اونچی نہیں ہوتی۔ لیکن سچ ہے کہ خداوند عالم اپنے مقبول بندوں کے اوقات میں کچھ ایسی برکت عطا فرما دیتا ہے کہ وہ تھوڑے وقت میں بہت بڑے بڑے کام کر گزارتے ہیں، جن کے لیے دوسروں کی طویل طویل عمریں بھی کفایت نہ کریں۔
حضرت سعید بن جبیرؒ رمضان شریف میں نماز تراویح پڑھایا کرتے تھے، ایک رات حضرت ابن مسعودؓ کے لہجے میں قرأت فرماتے۔
دوسری رات حضرت زید بن ثابتؓ کا لہجہ اختیار فرماتے۔
اور تیسری رات تیسرے لہجہ میں قرأت فرماتے تھے۔ یہ مختلف قرأتوں میں مہارت رکھتے تھے، جب اکیلے نماز پڑھتے تو بعض اوقات ایک ہی نماز میں پورا قرآن مجید ختم کردیتے ۔جب اس آیت پر گزر ہوتا۔
(ترجمہ) عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا جب طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور زنجیریں جن سے پکڑ کر وہ کھولتے ہوئے پانی کی طرف کھینچے جائیں گے، پھر دوزخ کی آگ میں جھونک دیئے جائیں گے۔ اسی طرح جب جنت کی خوش خبری اور دوزخ کی سزا والی آیات سے گزر ہوتا تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے، دل کانپ اٹھتا، بدن کپکپانے لگتا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ پھر وہ ان آیات کو گڑگڑا تے ہوئے بار بار دہراتے، دیکھنے والوں کو یہ شک ہونے لگتا کہ کہیں ان کو موت واقع نہ ہو جائے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭