تثلیث سے توحید تک

جمیلہ کرار (JAMILA QARAR) کا تعلق آسٹریا سے ہے۔ ان کا اپنی قبول اسلام کی داستان بیان کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ’’میں آسٹریا میں پیدا ہوئی، چونکہ میرے والدین دہریے تھے اور علانیہ خدا کا انکار کرتے تھے، اس لئے میری پرورش اسی ماحول میں ہوئی۔ میری ایک چھوٹی بہن تھی اور والدین کی پوری کوشش تھی کہ ہم دونوں بہنیں کسی مذہب کی کھکھیڑ میں پڑے بغیر زندگی گزارتی رہیں، لیکن اس کے برعکس ہوا یوں کہ میں ابھی سیکنڈری اسکول کی طالبہ تھی کہ مذہب میں میری دلچسپی بڑھنے لگی اور خدا کے تصور کے بغیر میں ایک قسم کی الجھن اور بے اطمینانی محسوس کرنے لگی اور میرے دل سے یہ صدا بلند ہونے لگی کہ کوئی ایسی اعلیٰ و برتر ہستی ضرور ہونی چاہئے جو انسانی معیارات سے ماورا منفرد و یکتا ہو، جو ہماری حفاظت کرے اور ہمیں قوت فراہم کرے۔ لیکن حالات اور ماحول کے پس منظر میں میرے دل کی یہ آواز دب کر رہ جاتی۔ تاہم جب بھی میں اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیتی، مجھے اپنے والدین سمیت اس معاشرے کا ہر شخص اداسی اور تنہائی کی دھند میں لپٹا ہوا نظر آتا، سچی مسرت شاید ہی کہیں نظر آتی تھی۔
چودہ سال کی عمر میں، میں نے ایک ادارے میں ٹائپسٹ کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی اور فارغ اوقات میں ایک کمرشل ووکیشنل اسکول میں داخلہ بھی لے لیا۔ عمر کے اس حصے میں بھی لوگوں کی طرح آرام و راحت اور تفریح ہی کو طرۂ امتیاز تھے۔ دراصل عیسائی مذہب اپنی قدروں کے اعتبار سے غیر معمولی انحطاط میں مبتلا ہے اور مادیت کے مظاہر ہر چہار طرف اس بری طرح چھا گئے ہیں کہ کوئی فرد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا، لیکن میں اسے اپنی خوش قسمتی ہی کہوں گی کہ اس سب کچھ کے باوجود میں نے ذہن کے دریچے کھلے رکھے اور عیسائیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی، لیکن افسوس کہ یہ مذہب میرے شعور و وجدان کو مطمئن کرنے میں قطعی ناکام رہا۔ چونکہ میں نے دہریت و انکار کے ماحول میں پرورش پائی تھی، اس لئے میں ٹھوس عقلی ثبوت چاہتی تھی۔ مجھے پادریوں اور دیگر مذہبی رہنماؤں کی غیر مستند اور من گھڑت روایات مطمئن نہیں کررہی تھیں۔
1967ء میں میری عمر اٹھارہ سال تھی، جب مشرقی و سطیٰ میںجنگ چھڑگئی اور یہی وقت کا سب سے بڑا موضوع بن گیا۔ قدرتی طور پر میرا ذہن بھی اس سے متاثر ہوا اور بے اختیار چاہا کہ عربوں کی تہذیب اور کلچر کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں اور دیکھا جائے کہ ان کے مسائل کیا ہیں؟ یہودیوں سے ان کے اختلافات کی بنیاد کیا ہے اور ان کے طرز حیات کی کیا خوبیاں اور کیا خامیاں ہیں؟ چنانچہ میں نے مختلف کتب خانوں سے رابطہ قائم کیا۔ پہلے عربوں کے بارے میں مطالعہ کیا اور پھر اس حوالے سے اسلام سے متعارف ہوئی، لیکن یہ افسوس ناک امر ہے کہ میں نے کتنی بھی تاریخی کتابوں، ناولوں اور رپورٹوں کا مطالعہ کیا، ان سب میں اسلام اور عربوں کے خلاف مصنفین کا تعصب اور عناد چھلک چھلک پڑتا تھا اور میں حیران تھی کہ غیرجانبداری، اعتدال اور انصاف کے ان علمبرداروں کو کیا ہوگیا ہے۔
آخر کار رب تعالیٰ نے میری مدد کی اور میں ویانا میں ایک مسلم کلچرل سوسائٹی سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اور یہاں میں نے اسلام کے بارے میں خود کو مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیا اور مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ اسلام تو محبت اور مساوات کا مذہب ہے، اس پر مردم کشی یا دہشت گردی کا الزام اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اس کا کسی خاص قوم یا نسل سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو سراسر بین الاقوامیت کا حامل ہے۔ مجھے اسلام کے اس پہلو نے بالخصوص بہت متاثر کیا کہ اس مذہب میں رنگ، نسل اور علاقے کی کوئی تفریق نہیں اور خدا کی نظروں میں وہی شخص عزت کا حامل ہے، جو اس کی الوہیت اور حاکمیت کا زیادہ شعور رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اخوت، باہمی رواداری، محبت اپنائیت اور ایثار و اخلاص کی جن اعلیٰ قدروں کا امین ہے، عیسائی معاشروں میں وہ ناپید ہیں۔ یہاں تو ایک ہی مذہب کے پروکار گورے اور کالے ایک گرجے میں مل کر عبادت بھی نہیں کرسکتے، بلکہ ایک ہی رنگ اور نسل کے امیر عیسائی اور غریب عیسائی ایک ہی گرجے میں الگ الگ درجوں میں عبادت کرتے ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment