امین امت ؓکی آزمائش

جب حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے بعد حضرت عمر بن خطابؓ کیلئے خلافت کی وصیت کی اور اس کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کیں تو حضرت ابو عبیدہؓ نے مکمل طور پر ان کی اطاعت کی اور ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی ان کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ وہ کون سا موقع تھا، جب حضرت ابو عبیدہؓ نے خلیفۃ المسلمینؓ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی؟
ہوا یہ کہ جس زمانے میں وہ شام کے علاقے میں لشکر مجاہدین کی قیادت فرما رہے تھے اور یکے بعد دیگرے فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے، پورے علاقے کو فتح کرتے ہوئے ایک طرف مشرق میں دریائے فرات اور دوسری جانب شمال میں ایشیائے کوچک تک پہنچ گئے تھے۔ شام میں اچانک طاعون کی زبردست اور غیر معمولی وبا پھوٹ پڑی، جس نے بے شمار انسانوں کو اپنے بھیانک خونی پنجوں میں جکڑ لیا اور دیکھتے دیکھتے ان گنت انسان لقمۂ اجل بن گئے۔
حضرت عمر فاروقؓ کو اس کا علم ہوا تو وہ سخت تشویش میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے ایک قاصد کو اس پیغام کے ساتھ حضرت ابو عبیدہؓ کی خدمت میں روانہ کیا کہ ’’اچانک مجھے ایک ضرورت پیش آگئی ہے، جس میں میرے لیے آپؓ سے مشورہ کرنا ناگزیر ہے۔ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ اگر میرا خط آپ کے پاس رات کے وقت پہنچے تو صبح کا انتظار کئے بغیر عازم سفر ہو جایئے اور اگر دن کو ملے تو شام ہونے سے پہلے رخت سفر باندھ لیجئے۔‘‘ حضرت ابو عبیدہؓ کو جب حضرت عمرؓ کا یہ خط ملا تو انہوں نے فرمایا:
’’مجھے معلوم ہے کہ امیر المومنین کو مجھ سے کیا ضرورت ہے۔ وہ ایک ایسے شخص کو طاعون سے بچانا چاہتے ہیں، جو بچنے والا نہیں ہے۔‘‘ پھر انہوں نے ان کے جواب میں لکھا ’’امیر المومنین! میں سمجھ گیا کہ آپ کو مجھ سے کیا ضرورت ہے۔ میں مسلمانوں کے لشکر میں اور اپنے دل میں اس قسم کی کوئی خواہش نہیں پاتا کہ میں اپنے آپ کو اس وبا سے محفوظ کرلوں، جس میں یہ سب لوگ مبتلا ہیں۔ میں اس وقت تک ان سے الگ نہیں ہو سکتا، جب تک کہ خدا تعالیٰ ان کے بارے میں اپنا فیصلہ نافذ نہیں کر دیتا، اس لیے جب میرا یہ خط آپ کو ملے تو آپ مجھے اپنی قسم سے بری کر دیجئے اور مجھے یہاں ٹھہرنے کی اجازت مرحمت فرما دیجئے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے یہ خط پڑھا تو رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے، حاضرین نے ان کی شدت گریہ کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا حضرت ابو عبیدہؓ کا انتقال ہو گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’نہیں، ان کا انتقال نہیں ہوا ہے، مگر موت ان سے زیادہ دور بھی نہیں ہے۔‘‘
اور حضرت عمرؓ کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا، اس لیے کہ اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد وہ طاعون میں مبتلا ہو گئے اور جب ان کی موت کی گھڑی قریب آگئی تو انہوں نے اپنی فوج کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں تم لوگوں کو ایک وصیت کررہا ہوں، اگر اس پر عمل کرو گے تو ہمیشہ خیر و فلاح پر قائم رہو گے۔ دیکھو! نماز قائم کرو، ماہ رمضان کے روزے رکھو، صدقہ و خیرات کرتے رہو، حج اور عمرہ ادا کرو، آپس میں ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کیا کرو، اپنے اُمرا کے ساتھ خیر خواہی کرو، ان کے ساتھ خیانت اور فریب سے کام نہ لو اور دنیا تم کو دھوکے میں نہ ڈالے، اس لیے کہ اگر آدمی کو ہزاروں سال کی طویل زندگی بھی مل جائے، تب بھی اس کیلئے اس انجام سے دوچار ہونا ضروری ہے، جس سے اس وقت میں دوچار ہوں۔ والسلام علیکم…‘‘
پھر انہوں نے حضرت معاذ بن جبلؓ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا: ’’معاذ! میرے بعد لوگوں کو نماز تم پڑھائو گے۔‘‘ اور تھوڑی دیر بعد طائر روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا۔ انتقال کے بعد حضرت معاذ بن جبلؓ نے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! میں ایک ایسے شخص کی موت کے صدمے سے دوچار ہوں کہ بخدا میں نے آج تک کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو اس سے زیادہ مخلص و پاک طینت اور اس سے زیادہ شر و کینہ سے دور ہو۔ نہ میں نے کسی ایسے شخص کو دیکھا، جو اس سے زیادہ آخرت سے محبت کرنے والا اور مسلم عوام کا خیرخواہ ہو، اس کے لیے خدا تعالیٰ سے رحم کی دعا کرو۔ خدا تعالیٰ تمہارے اوپر رحم فرمائے۔
چنانچہ امت مسلمہ کے امین سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو وہیں دفن کیا گیا۔ اس وقت ان کی قبر اردن کے شہر سلط سے چالیس کلومیٹر دور ’’غور البلاونۃ‘‘ میں سڑک کنارے واقع ہے۔ آپؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
نبی کریمؓ نے فرمایا:
ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے، اے امت! ہمارے امین ابوعبیدہ بن الجراحؓ ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment