غیبت کا گناہ اور دس عبرت

حضرت جنید بغدادیؒ کی حیات میں پیش آنے والا ہر واقعہ درس عبرت تھا یا قدرت کی طرف سے دیا جانے والا ایک ناقابل فراموش سبق۔ ایک بار حضرت جنید بغدادیؒ ’’مسجد شونیزیہ‘‘ میں تشریف فرما تھے اور کسی جنازے کے منتظر تھے۔ اسی دوران مسجد میں ایک فقیر داخل ہوا اور اس نے لوگوں سے مانگنا شروع کر دیا۔
فقیر کا یہ رنگ دیکھ کر حضرت جنید بغدادیؒ نے دل میں سوچا ’’کاش یہ شخص کسی ایک کے سامنے اپنی حاجت بیان کرتا اور اس طرح تمام لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتا۔‘‘
ابھی آپؒؒ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ میدان میں ایک جنازہ لایا گیا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے نماز جنازہ ادا کی اور گھر تشریف لے آئے، پھر جب آپؒ رات کو سوئے تو ایک عجیب منظر دیکھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ ایک کمرے میں تشریف فرما ہیں، اچانک ایک گوشے سے کچھ لوگ برآمد ہوئے، وہ ایک لاش کو اٹھائے ہوئے تھے، پھر وہ لاش حضرت جنید بغدادیؒ کے سامنے رکھی گئی۔ آپؒ بڑی حیرت اور خاموشی سے اجنبی انسانوں کا یہ عمل دیکھ رہے تھے۔
’’جنید! اس کا گوشت کھاؤ؟‘‘ اجنبی لوگوں نے آپؒ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’میں مردہ خور نہیں ہوں، پھر اس مردے کا گوشت کس طرح کھاؤں؟‘‘ حضرت جنید بٖغدادیؒ نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
’’کل جس طرح مسجد میں بیٹھ کر کھایا تھا، اسی طرح کھاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اجنبی لوگ چلے گئے۔ مگر لاش وہیں رکھی رہی۔
حضرت جنید بٖغدادیؒ فوراً سمجھ گئے کہ انہیں اس طرح تنبیہ کی جا رہی ہے۔ آپؒ نے غور سے لاش کی طرف دیکھا، یہ اسی فقیر کی لاش تھی جو مسجد میں بھیک مانگ رہا تھا اور جسے دیکھ کر حضرت جنید بغدادیؒ نے دل میں سوچا تھا کہ کاش یہ شخص کسی ایک کے سامنے اپنا دست طلب دراز کرتا۔ یہ ایک قسم کی غیبت تھی اور غیبت کے بارے میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی انسان کی غیبت کی، گویا اس نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا۔ اجنبی لوگوں نے اسی طرف اشارہ کیا تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے خود کلامی کے انداز میں کہا ’’یہ تو غیبت کی سزا ہے، بے شک! اس فقیر کی طرف سے میرے دل میں برا خیال گزرا تھا، مگر میرے دل کی بات زبان پر نہیں آئی تھی۔‘‘
فوراً ہی ایک صدائے غیب سنائی دی ’’جنید! تم جس مرتبے کے انسان ہو، اس کے دل میں اس قسم کا خیال گزرنا بھی ویسا ہی گناہ ہے جیسا کہ کسی دوسرے انسان سے عملی طور پر سرزد ہو۔‘‘
یہ سن کر حضرت جنید بغدادیؒ پر رقت طاری ہوگئی اور آپؒ نے نہایت عاجزی کے ساتھ توبہ کی…’’خدایا! میں نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا ہے۔ اگر تو نے مجھے معاف نہیں فرمایا اور میرے حال پر رحم نہیں کیا تو میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جاؤں گا۔‘‘
جیسے ہی حضرت جنید بغدادیؒ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے، وہ لاش غائب ہوگئی۔
ایک موقع پر حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’چالیس سال تک زہد و تقویٰ کی زندگی گزارنے کے بعد ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ اب میں اپنے مقصود میں کامیاب ہوگیا ہوں۔ اس خیال سے مجھ پر سرشاری کی عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔
پھر دوسرے ہی لمحے ایک آواز سنائی دی، میں نے غور سے سنا، یہ آواز میرے ہی دل سے ابھر رہی تھی ’’جنید! اب وقت آگیا ہے کہ تجھے تیرے زنار کا سرا دکھا دیا جائے۔‘‘
(زنار اس ڈوری کو کہتے ہیں جسے ہندو کمر اور گردن کے گرد اپنے مذہب کی نشانی کے طور پر ڈالتے ہیں۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے جو آواز سنی تھی اس کا مفہوم یہ تھا کہ اے اپنی عبادت پر ناز کرنے والے تجھے معلوم ہے کہ تو کتنا گمراہ ہے؟ تجھے اپنی توحید پرستی پر غرور ہے، لیکن درحقیقت تو اپنے گلے میں بت پرستوں کی طرح زنار ڈالے ہوئے ہیں)
یہ آواز سنتے ہی حضرت جنید بغدادیؒ پر لرزہ طاری ہوگیا، پھر لرزتی ہوئی آواز میں آپؒ کی زبان سے نکلا۔
’’خداوند! تیرے بندے جنید سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے؟‘‘
غیب سے آواز سنائی دی ’’اس سے بڑا گناہ کیا ہوگا کہ تو ابھی تک موجود ہے؟‘‘
(یہاں موجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ بندے نے ابھی تک اپنی ذات کی نفی نہیں کی اور خواہشات نفسانی کی پرستش میں لگا ہوا ہے)
یہ آواز سن کر حضرت جنید بغدادیؒ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے، آپؒ نے سر جھکا لیا اور انتہائی ندامت آمیز لہجے میں کہا:
’’جو وصل کے قابل نہیں ہے، اس کی تمام نیکیاں گناہ ہیں۔‘‘
آپؒ مریدوں کی تربیت کے لئے اکثر یہ واقعہ سناتے ہوئے اپنے الفاظ دہرایا کرتے تھے۔
’’انسان کی معراج طلب یہ ہے کہ اسے وصال کی نعمت حاصل ہو اور اگر اسے محبوب کی قربت حاصل نہ ہو تو اس کی ساری کوششیں رائیگاں ہیں۔‘‘
اردو کے مشہور شاعر فانی بدایونی نے بھی معرفت کے اس نکتے کو بڑے دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے۔
حرم و دیر کی گلیوں میں پڑے رہتے ہیں
جو تری بزم میں شامل نہیں ہونے پاتے
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment