سرفروش

عباس ثاقب
اس تحکم بھرے لہجے میں سنتری کا سوال سن کر مجھے جھٹکا لگا۔ میرا ہاتھ بے اختیار پستول کی طرف بڑھتے بڑھتے رک گیا۔ میرے ذہن نے برق رفتاری سے تجزیہ کیا۔ اسے محض حلیے اور شکل و صورت کی وجہ سے مجھ پر شک ہوا ہے یا یہ پکی مخبری کے ساتھ مجھ تک پہنچا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس نے شانے پر لٹکی بندوق سیدھی کر کے مجھے نشانے پر کیوں نہیں لیا؟ اسے تو میرے پاس آتشیں ہتھیار کی موجودگی کا شدید خطرہ ہونا چاہیے تھا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس نے مجھ سے ہی کیوں سوال کیا؟ کیا میں شکل سے مجرم دکھائی دے رہا ہوں۔
وجہ کچھ بھی رہی ہو۔ اس کے سوالات کا جواب دینا مجبوری تھی۔ میں نے طے کیا کہ عاجزی، بلکہ خوشامد سے کام لینے میں ہی عقل مندی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتا۔ گوسوامی درمیان میں کود پڑا۔ اس نے ناراضی بھرے سخت لہجے میں پولیس والے کو کہا۔ ’’پہلے تم بتاؤ سنتری جی۔ تمہیں کسی نے شریف شہریوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں سکھائی؟ یہ تم کس لہجے میں بات کر رہے ہو؟‘‘۔
گوسوامی کا لہجہ اس قدر سخت اور آواز اتنی بلند تھی کہ بس کے سارے مسافر ہماری طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ ان میں سے کچھ کے چہروں پر خوشی اور ستائش کے آثار دکھائی دیئے۔ ادھر گوسوامی کی غیر متوقع مداخلت اور تابڑ توڑ سوالوں پر سنتری گڑبڑا گیا۔ اس نے سنبھل کر کوئی سخت جواب دینا چاہا۔ لیکن شاید مخاطب کے غیر معمولی اعتماد اور ڈیل ڈول سے کچھ مرعوب ہوگیا۔ اس نے قدرے دفاعی لہجے میں کہا۔ ’’تم بیچ میں نہ بولو مہاشے۔ میں اپنی ڈیوٹی دے رہا ہوں‘‘۔
اس پر گوسوامی نے پہلے سے بھی دبنگ لہجے میں کہا۔ ’’کیوں نہ بولوں؟ اب یہاں گوروں کا راج نہیں۔ لوک تنتر (جمہوریت) ہے۔ ہم جنتا تمہاری داس نہیں۔ تم ہمارے سیوک ہو۔ تم کو ایسے سُر میں بات کرنے کا ادھیکار کس نے دیا؟‘‘۔
سنتری نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے گوسوامی کے تیور بھانپنے کی کوشش کی اور پھر پسپائی میں ہی خیریت سمجھی۔ ’’جی، میرا ان کا اپمان کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ بس سادھارن (سادہ) سا سوال کیا تھا‘‘۔
گوسوامی نے جواب میں چڑھائی جاری رکھی۔ ’’بات سوال کی نہیں۔ تمہاری انسلٹ کرنے والی ٹون ہے۔ میرے ساتھی کو چھوڑو۔ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو۔ میرا نام آسوتوش گوسوامی ہے۔ امرتسر کے بھارتیا ودیا بھون (اسکول) کا سینیئر ہندی ٹیچر ہوں۔ یہ میرا بھتیجا ہے اور ہم دونوں ایک ایمرجنسی میںانبالے جارہے ہیں۔ اورکچھ؟‘‘۔
سنتری نے جان چھڑانے کے انداز میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے ماسٹر جی۔ آپ کو تو پتا ہے راجیہ میں سرکھشا پرشتیتی (امن و امان کی صورتِ حال) بگڑی ہوئی ہے۔ ہمیں اوپر سے ساؤ دھان رہنے اور کڑی چوکسی رکھنے کے آرڈر ملے ہوئے ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر وہ گوسوامی کی طرف سے مزید کسی سرزنش سے بچنے کے لیے بس میں آگے بڑھ گیا۔ گوسوامی نے داد طلب نظروں سے مجھے دیکھا اور فاتحانہ لہجے میں کہا۔ ’’دیکھا کیسے سیدھا کیا اسے؟ پتا نہیں خود کو کیا سمجھتے ہیں یہ پولیس والے۔ جنتا کو تنگ کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے‘‘۔
میں نے بادل نخواستہ اسے دھنے باد کہا۔ اس دوران میں سنتری بس کا چکر لگا کر واپس چلا گیا تھا۔ اسے بس سے اترتے ہوئے مسافروں کے قہقہوں اور طنزیہ فقروں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
ادھر میں گوسوامی کی طرف سے میرے لئے رضاکارانہ اور جارحانہ دفاع کی ممکنہ وجہ پر غور کر رہا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ محض اپنی چوہدراہٹ جتانے اور مجھ سمیت بس مسافروں کی واہ واہ سمیٹنے کے لیے یہ طرم خانی دکھا گزرا ہو۔ لیکن میرا دماغ متنبہ کر رہا تھا کہ اپنی حساس صورتِ حال کے پیشِ نظر اس تمام ڈرامے کو محض اتفاق کہہ کر نظر انداز نہ کروں۔ یہ شخص مجھے کئی اعتبار سے خفیہ پولیس کے انسپکٹر گرداس سنہا سے مشابہ لگ رہا تھا۔ جس نے بس کے ذریعے مالیر کوٹلہ سے سفر کے دوران مجھے تاڑ لیا تھا اور بے بس کرکے بھٹنڈا میں خفیہ پولیس کے مرکز پر محصور کر دیا تھا۔ جہاں سے ظہیر نے جان پر کھیل کر مجھے رہائی دلائی تھی۔
میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے شک کی تصدیق یا تردید کی کوئی ترکیب آزمانی پڑے گی۔ فوری طور پر میرا ذہن کوئی واضح لائحہ عمل طے نہ کر سکا تو میں نے آنے والے وقت میں میسر کسی موقع کا انتظار مناسب سمجھا۔
گوبند نے مجھ پر جو احسان کیا تھا۔ اس کے پیش نظر اب اس سے بے رخی یا اجنبیت برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا۔ ویسے بھی میں اسے قریب سے نظروں میں رکھ کر ہی اس کی اصلیت کا پتا لگا سکتا تھا۔ لہٰذا میں اس سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگا۔ میں نے اپنا نام سکھویر رجوانہ بتایا۔ میرے والد رندھیر کا آبائی تعلق منٹگمری سے ہے اور وہ دلّی میں چاول کے بیوپاری ہیں۔ میں کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتا ہوں اور اسی سلسلے میں بٹالے آیا تھا۔ کام پورا ہونے پر متھا ٹیکنے ہرمندر صاحب گیا تھا اور اب انبالے میں ایک اور سودا کر کے ایک دو دن میں واپس دلّی روانہ ہوجاؤں گا۔
گوسوامی میری باتیں غور سے سنتا رہا اور ستائشی انداز میں سر ہلاتا رہا۔ پھر اس نے اپنے بارے میں بتایا۔ اسے ہائی اسکول ٹیچر کی حیثیت سے بیس سال کا تجربہ ہے۔ اس کے شاگرد پورے ہندوستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ لہٰذا وہ پولیس وغیرہ کو گھاس نہیں ڈالتا، وغیرہ وغیرہ۔ میں بھی اس کے دبنگ اندازِ گفتگو اور خود اعتمادی کی تعریف کرتا رہا۔ ساتھ ہی پولیس والوں کے عوام دشمن رویے پر ناراضی کا اظہار کرتا رہا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment