عسکری تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کا پلان تین برس پرانا ہے

امت رپورٹ
عسکری تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کا پلان تقریباً تین برس پرانا ہے، جو نواز شریف کے دور حکومت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت پاکستان کو پٹھان کوٹ حملے کے بعد آنے والے دبائو کا سامنا تھا۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے پابندی کے شکار افراد اور تنظیموں کو کنٹرول میں لے کر ان کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق سلامتی کونسل کے احکامات کا مقصد پابندی کی شکار تنظیموں اور افراد کو درست کرنا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے بقول وزیر اعظم عمران خان نے اس کارروائی کی منظوری دسمبر 2018ء میں دی تھی۔ اس پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کے ارکان کو مین اسٹریم میں لانے کے لئے ایف سی اور پولیس میں بھرتی کرنا تھا۔
تاہم ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ عسکری تنظیموں کے ارکان کو قومی دھارے میں لانے کا پلان نیا نہیں اور نہ ہی یہ فیصلہ موجودہ حکومت کے دور میں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق قریباً تین برس پہلے اپریل 2016ء میں قومی سلامتی کے ادارے آئی ایس آئی نے اس سلسلے میں حکومت کو دو پلان بناکر دیئے تھے۔ اس وقت جنرل رضوان اختر ادارے کے سربراہ تھے۔ ذرائع کے بقول اس پلان کا پس منظر یہ تھا کہ نائن الیون کے بعد جب بھی بھارت یا مقبوضہ کشمیر میں کوئی واردات ہوئی۔ اس کا الزام لشکر طیبہ یا جیش محمد پر لگاکر پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کی گئی۔ ممبئی پارلیمنٹ پر 2001ء میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان پر اسی نوعیت کا دبائو آیا۔ بھارت کا الزام تھا کہ اس کارروائی میں لشکر طیبہ اور جیش محمد ملوث ہیں۔ لیکن دہلی حکومت اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکی تھی۔ اس کے باوجود بھارتی ایما پر امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالا۔ اس کے نتیجے میں اس وقت کے حکمراں جنرل مشرف نے مقبوضہ کشمیر میں برسر پیکار جہادی تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون کرکے ان پر پابندی لگادی۔ ذرائع کے مطابق مشرف نے فاش غلطی یہ کی کہ پابندی کے بعد ان تنظیموں کے ارکان کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ Deradicalization (انتہا پسندی کے رجحان کو ختم کرنے کا عمل) پوری دنیا میں ایک تسلیم شدہ عمل ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پابندی کی شکار تنظیموں کی قیادت اور بیشتر ارکان تو ریاست پاکستان کے خلاف نہیں ہوئے، لیکن ایک قابل ذکر تعداد ایسی بھی تھی جس نے محسوس کیا کہ امریکی و بھارتی خوشنودی کے لئے کشمیر کاز سے غداری کی گئی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنی الگ تنظیمیں بناکر الٹا حکومت پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھالئے۔ ذرائع کے مطابق عصمت اللہ معاویہ کا تعلق جیش محمد سے ہی تھا، جس نے تنظیم سے الگ ہوکر پنجابی طالبان کے نام سے اپنا الگ گروپ بنالیا۔ (اب عصمت اللہ معاویہ کو قومی دھارے میں لایا جاچکا ہے) اور یہ گروپ حکومت پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہوگیا۔ جس سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ سری لنکن ٹیم پر حملہ کرنے والوں میں بھی پنجابی طالبان ملوث تھے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی مسلح جدوجہد کرنے والی لشکر طیبہ سے الگ ہوکر الیاس کشمیری نے پہلے اپنا الگ گروپ بنایا اور پھر کالعدم تحریک طالبان جوائن کرلی۔ ذرائع کے مطابق پابندی کے نتیجے میں اپنے ہی لوگوں کو مخالف بناکر پاکستان نے بڑا نقصان برداشت کیا۔ لیکن بھارت کی سوئی اپنی جگہ اٹکی رہی اور جب 2008ء میں ممبئی اٹیک ہوا تو ایک بار پھر اس کا الزام لشکر طیبہ پر لگاکر پاکستان پر دبائو بڑھادیا گیا۔ الزام تراشی اور دبائو کا یہ سلسلہ 2016ء میں ہونے والے پٹھان کوٹ حملے تک اسی طرح چلتا رہا۔ پٹھان کوٹ حملے کا الزام بھارت نے جیش محمد کے سر تھوپا اور اس پر پابندی لگوانے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک جا پہنچا۔ جہاں امریکہ، برطانیہ اور فرانس بھی اس کے حامی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پٹھان کوٹ حملے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ جب نیشنل سیکورٹی کی میٹنگز ہوا کرتی تھیں تو ان اجلاسوں میں یہ بات زیر بحث آتی رہی ہے کہ عسکری تنظیموں کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ تاکہ ہر حملے کے بعد بھارت جو واویلا مچاتا ہے، اس کا توڑکیا جاسکے۔ ان اجلاسوں میں یہ بھی ڈسکس ہوا کہ مشرف دور میں اگرجہادی تنظیموں کے کیمپ بند کرانے کے بعد ان تنظیموں کے ارکان کو قومی دھارے میں لے لیا جاتا تو یہ کبھی اپنی ریاست کے خلاف ہتھیار نہ اٹھاتے اور نہ غیر ملکی ایجنسیوں کو ان ناراض ارکان کو استعمال کرنے کا موقع ملتا۔ قومی اداروں کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجود جہادی تنظیموں کا لیبل لگی تنظیموں کی قیادت اور لوگ کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں۔ لیکن جب یہ بھارت کے خلاف بڑی بڑی ریلیاں نکالتے ہیں تو دہلی حکومت بین الاقوامی طور پر اس کو ایکسپلائٹ کرتی ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کو اگر قومی دھارے میں شامل کرلیا جائے تو اس ایشو سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر نے وزیر اعظم نواز شریف کو دو پلان دیئے تھے۔ ایک پلان پر وزارت داخلہ اور دوسرے پلان پر نیکٹا نے عمل کرانا تھا۔ جبکہ عسکری تنظیموں کو ڈی ریڈی کلائز کرنے کے ان دو منصوبوں کے دیگر کئی مرحلے تھے، جس کے تحت وفاق المدارس، وزارت خزانہ اور محکمہ تعلیم سمیت دیگر چند حکومتی محکموں نے اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان میں ایک بنیادی مرحلہ مذکورہ تنظیموں کے ٹریننگ یافتہ ارکان کو ایف سی اور پولیس میں بھرتی سے متعلق تھا۔ جبکہ ایسے ارکان جو تربیت یافتہ نہیں تھے، انہیں حکومت کے دیگر محکموں میں کھپانے کی تجویز دی گئی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تینوں پلان اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے نیکٹا کے حوالے کردیئے تھے لیکن بوجوہ ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
ذرائع کے مطابق عسکری تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کا پلان حکومت کے حوالے کئے جانے کے قریباً ایک برس بعد ایک تھنک ٹینک کے سیمینار میں یہ مباحثہ بھی کرایا گیا تھا کہ عسکری تنظیموں کے جو ارکان قومی دھارے میں آنے کے لئے سیاست کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس کی اجازت ہونی چاہئے۔ اس تھنک ٹینک نے ڈھائی سے تین ماہ اس پر ریسرچ کی تھی کہ عسکری تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے کون کون سے طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔ بند کمرے کے اس اجلاس میں سپاہ صحابہ کے سربراہ حافظ لدھیانوی اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے بھائی حافظ محمود بھی شریک تھے۔ جبکہ بعض ریٹائرڈ جنرلز اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی ڈسکشن میں حصہ لیا۔ آٹھ گھنٹے تک یہ سیشن چلتا رہا۔ سپاہ صحابہ اور جماعت الدعوۃ کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ ان کے لوگ قومی دھارے میں آنا چاہتے ہیں۔۔ لیکن حکومت انہیں راستہ نہیں دے رہی۔ ان پر ہر طرف سے الزام تراشیاں ہوتی ہیں۔ اگر انہیں اجازت مل جائے تو وہ سیاسی پارٹی کی شکل میں بھی ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس سوچ کے ساتھ ہی جماعت الدعوۃ نے سیاسی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور طے کیا تھا کہ اس سیاسی پارٹی کا ڈھانچہ جماعت الدعوۃ سے الگ ہوگا۔ ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی پارٹی بنانے والوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت تو مل گئی۔ لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی پارٹی رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔ جبکہ دوسری جانب نام نہاد لبرلز نے ملی مسلم لیگ کے قیام پر الگ شور مچایا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے عسکری تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کا جو پلان بنایا ہے، یہ اسی فیصلے کا فالو اپ ہے، جو گزشتہ حکومت کے دور میں تجویز کیا گیا تھا۔ اس وقت پٹھان کوٹ واقعہ ہوا تھا اور اب پلوامہ حملے کے بعد اس پلان کو دوبارہ زندہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل ہوتا ہے یا ماضی کی طرح پلان کا مسودہ الماری میں بند پڑا رہ جائے گا۔ ذرائع کے بقول ماضی کی بہ نسبت اس بار پاکستان پر آنے والے دبائو میں کچھ اضافہ اس صورت میں ہے کہ اب امریکہ اور بھارت پریشر بڑھانے کے لئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کو بھی ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment