عہد رسالت ﷺ کے جانباز

حضرت عمرو بن اوس انصاریؓ قبیلہ اوس کے خاندان زعورا بن جشم کے چشم و چراغ تھے۔ حضرت عمروؓ اپنے دو بھائیوں حضرت مالکؓ اور حضرت حارثؓ کے ساتھ غزوئہ احد سے پہلے شرف اسلام سے بہرہ ور ہوئے اور پھر تینوںنے غزوئہ احد سے لیکر غزوئہ تبوک تک عہد رسالت کے تمام غزوات میں داد شجاعت دی۔
سرکار دو عالمؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی تینوں بھائی برابر جہاد میں مشغول رہے اور تینوں بھائی رتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ حضرت مالکؓ نے مرتدین کے خلاف داد شجاعت دیتے ہوئے جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔ حضرت حارثؓ نے جنگ اجنادین (جمادی الاولیٰ 13ھ) میں جام شہادت پیا۔ حضرت عمروؓ عہد فاروقی میں اس لشکر میں شامل ہوگئے جو امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابو عبید ثقفیؓ کی قیادت میں عراقِ عرب روانہ کیا اور معرکہ جسر (سن 14ھ) میں سینکڑوں دوسرے مجاہدین کے ساتھ رتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔
حضرت عمرو بن قیس انصاریؓ قبیلہ خزرج کے معزز ترین خاندان بنی نجار کے چشم و چراغ تھے۔ ابن اثیرؒ کا بیان ہے کہ ان کی کنیت ابو عمر اور ابو الحکم تھی۔ (اسد الغابہ)
آپؓ انصار کے سابقین اولین میں سے ہیں۔ آپؓ کی شادی مشہور صحابیہ حضرت ام حرام بنت ملحانؓ سے ہوئی۔ دونوں میاں بیوی بلکہ ان کے سارے گھرانے کو رسول اکرمؐ سے بے پناہ عقیدت اور محبت تھی اور وہ راہ حق میں ہر وقت اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
ہجرت نبویؐ کے بعد غزوات کا آغاز ہوا تو حضرت عمرو بن قیسؓ اور ان کے نوجوان فرزند حضرت قیس بن عمروؓ کو ان تیرہ سو تیرہ سرفروشوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا، جو حق و باطل کے معرکہ اول غزوئہ بدر الکبریٰ (رمضان المبارک سن دو ہجری) میں رحمتِ عالمؐ کے ہم رکاب تھے۔
علاہ ابن اثیرؒ کا بیان ہے کہ حضرت عمرو بن قیسؓ کے شریک بدر ہونے پر سب کا اتفاق ہے، لیکن ان کے فرزند حضرت قیسؓ کے بدری ہونے میں اختلاف ہے، البتہ ان کے احدی ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ سن تین ہجری میں معرکہ احد برپا ہوا تو حضرت عمرو بن قیسؓ اور ان کے فرزندِ سعید حضرت قیس بن عمروؓ بڑے ذوق و شوق سے میدان کارزار میں پہنچے اور سر بکف ہو کر مشرکین مکہ سے نبرد آزما ہوگئے۔ ایک موقع پر مشرکین نے ان کو نرغے میں لے لیا اور ان پر تلواروں اور برچھیوں کا مینہ برسا دیا، یوں دونوں باپ بیٹے جام شہادت نوش فرما گئے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت عمرو بن قیسؓ کو نوفل بن معاویہ دیلی نے شہید کیا۔ نیز حضرت قیس بن عمروؓ کے شہید احد ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ (از: حبیب کبریاؐ کے تین سو اصحاب)
حضرت عصمہ بن رئاب انصاریؓ قبیلہ اوس کے خاندان عمرو بن عوف کے فرزند سعید تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے ذیقعدہ چھ ہجری میں بیعت رضوان کا متہم بالشان شرف حاصل کیا۔ اس کے بعد عہد رسالت کے دوسرے تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ خلیفۃ الرسول سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کو مسیلمہ کذاب کی سر کوبی پر مامور کیا گیا تو حضرت عصمہؓ بھی ان کے لشکر میں شامل ہو گئے اور یمامہ کی خونریز لڑائی میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت پی کر جنت الفردوس میں پہنچ گئے۔
حضرت علی بن ابی العاصؓ رسول اکرمؐ کے سب سے بڑے حقیقی نواسے تھے۔ والدہ حضرت زینبؓ رسول اقدسؐ کی صاحبزادی تھیں اور والد حضرت ابو العاصؓ تھے۔ حضرت علیؓ ہجرت نبوی سے چھ سات سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق انہوں نے رضاعت (دودھ پینے کے) دو سال قبیلہ بنی غاضرہ میں گزارے۔
حافظ ابن حجرؒ کا بیان ہے کہ رضاعت کا زمانہ گزارنے کے بعد جب وہ گھر واپس آئے تو آنحضورؐ نے اپنی لخت جگر حضرت زینبؓ سے حضرت علی بن ابی العاصؓ کو مانگ لیا۔ چنانچہ انہوں نے بچپن سے جوانی تک اپنے ناناؐ کی آغوش شفقت میں پرورش پائی۔
آپؐ کو حضرت علی بن ابی العاصؓ سے بہت محبت تھی۔ آپؐ رمضان آٹھ ہجری میں فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت علیؓ کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا رکھا تھا۔ (اسد الغابہ) اس وقت ان کی عمر چودہ برس تھی۔ (الاصابہ)
سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں رومیوں کے خلاف یرموک کی خونریز لڑائی پیش آئی تو حضرت علیؓ بھی اسلامی لشکر میں شامل تھے۔ وہ اس لڑائی میں مردانہ وار لڑتے ہوئے رتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ (ابن عساکر)
ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت علی بن ابی العاصؓ نے فتح مکہ کے بعد کسی وقت رسول اقدسؐ کے سامنے وفات پائی۔ (اسد الغابہ)
حضورؐ کی پیاری نواسی حضرت امامہؓ بنت سیدہ زینبؓ حضرت علی بن ابی العاصؓ کی حقیقی بہن تھیں۔ وہ حضرت فاطمہ الزہرائؓ کی وفات کے بعد حضرت علی بن ابی طالبؓ کے عقد نکاح میں آئیں۔ انہوں نے طویل زندگی پائی اور حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیانؓ کے عہد حکومت میں وفات پائی۔
حضرت علی بن ابی العاصؓ کی والدہ کے اسم گرامی کی نسبت سے علی زینبی بھی کہا جاتا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment