ایک بار حضرت جنید بغدادیؒ نماز عشاء ادا کرنے کے بعد سو گئے۔ آپؒ نے خواب میں ایک برہنہ شخص کو دیکھا جو بڑی بے حیائی کے ساتھ ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔ آپؒ نے اس سے پوچھا:
’’ اے بے حیاء شخص! تو کون ہے؟‘‘
وہ بڑی بے شرمی کے ساتھ مسکرایا’’جنید! مجھے نہیں پہچانے؟ میں وہی ہوں جو روز ازل راندہ درگاہ قرار پایا تھا۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا’’ تجھے لوگوں سے شرم نہیں آتی جو اس طرح بے لباس ہو کر مارا پھر رہا ہے۔‘‘
’’ یہ لوگ انسان کب ہیں، پھر میں ان سے کیوں شرم کروں؟‘‘ شیطان نے کہا۔
’’ تیرے خیال میں خدا کی زمین انسانوں سے خالی ہوگئی ہے؟‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔
’’مجھے یہی تو غم ہے کہ میں اپنی کوششوں میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکا۔‘‘ شیطان نے انتہائی شکستہ لہجے میں کہا۔ ابھی اس زمین پر کچھ انسان باقی ہیں جو مسجد ’’شونیزیہ‘‘ میں بیٹھے ہیں۔ ان ہی لوگوں نے میرے جسم کو زخموں سے بھر دیا ہے اور میرے دل کو جلا کر خاک کردیا ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ کی آنکھ کھلی تو آپؒ نے فوری طور پر لاحول پڑھی اور وضو کیا۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ گھر سے نکلے اور تیزی رفتاری کے ساتھ ’’مسجد شونیزیہ‘‘ کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر آپؒ نے چند لوگوں کو دیکھا، جو استغراق کے عالم میں اپنے زانوؤں پر سر رکھے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب حضرت جنید بغدادیؒ ان درویشوں کے قریب تشریف لے گئے تو انہوں نے سر اٹھا کر کہا۔
’’جنید! اس خبیث نے جو کچھ کہا تم نے سن لیا، مگر اس مردود کی باتوں میں نہ آنا۔ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ ان درویشوں کی بات سن کر حیران رہ گئے۔ اس روز آپؒ کو اندازہ ہوا کہ خدا کی زمین پر کیسے کیسے برگزیدہ بندے موجود ہیں، جنہیں کوئی جانتا تک نہیں۔
چند سال بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے اسی انداز کا خواب دیکھا کہ شیطان بازار میں برہنہ پھر رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا ہے، جسے وہ خوشی خوشی کھا رہا ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے شیطان کو اس حالت میں دیکھ کر کہا۔
’’تجھے انسانوں کے مجمع عام میں اس طرح برہنہ پھرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘ ’’ابو القاسم! کیا اب بھی زمین پر ایسا کوئی شخص رہ گیا ہے، جس سے مجھے شرم آئے؟‘‘ شیطان نے بڑے بے باکانہ انداز میں کہا۔ ’’مجھے جن لوگوں کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی تھی، وہ سب زمین میں دفن ہوگئے اور مٹی انہیں کھا گئی۔‘‘
اس قسم کے سارے خواب حضرت جنید بغدادیؒ کی رہنمائی کے لیے تھے۔ ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ نے خواب میں دیکھا کہ آپؒ وعظ کر رہے ہیں۔ یکایک ایک فرشتہ آسمان سے اُترا اور آپؒ کے قریب آکر ٹھہر گیا۔ پھر اس فرشتے نے حضرت جنید بغدادیؒ سے پوچھا۔
’’جن کاموں کے ذریعے خدا کے بندے قربت الٰہی حاصل کرتے ہیں، ان کاموں میں سب سے افضل کام کون سا ہے؟‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا ’’وہ کام جو میزان میں بھی مخفی ہے اور کہنے میں بھی۔‘‘
فرشتے نے حضرت جنید بغدادیؒ کا جواب سنا اور یہ کہتا ہوا چلا گیا ’’خدا کی قسم! یہ وہ کلام ہے جو توفیق الٰہی کے بغیر زبان سے ادا نہیں ہوتا۔‘‘
اسی طرح ایک بار حضرت جنید بغدادیؒ نے خواب میں دو فرشتوں کو دیکھا جو آسمان سے اُتر کر زمین پر آئے۔ ایک فرشتے نے آگے بڑھ کر آپؒ سے پوچھا ’’صدق کیا ہے؟‘‘
جواب میں آپؒ نے فرمایا ’’عہد کو پورا کرنا ہی صدق ہے۔‘‘
’’سچ ہے۔‘‘ دونوں فرشتوں نے کہا اور آسمان کی طرف پرواز کرگئے۔
اپنے ایک اور خواب کے بارے میں حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے ایک بار ایک دربار نورانی دیکھا، جس میں ہر طرف تیز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی شے نظر نہیں آتی تھی۔ بس ہر طرف نور ہی نور تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں بارگاہ صمدیت میں حاضر ہوں۔ یکایک پردہ نور سے ایک انتہائی پر جلال آواز ابھری، جسے سن کر مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔
’’ ابوالقاسم! یہ باتیں جو تم کہا کرتے ہو تمہیں کہاں سے معلوم ہوئیں؟‘‘ مجھے سے سوال کیا گیا۔
میں نے عرض کیا: ’’میں تو صرف وہی بیان کرتا ہوں، جو سچ ہوتا ہے۔‘‘ پردہ غیب سے ارشاد ہوا۔ ’’ابو القاسم! سچ کہتے ہو۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭