سرفروش

عباس ثاقب
اس اثنا میں بس کرتار پور پہنچ گئی۔ کنڈکٹر کی اطلاع کے عین مطابق اگلی نشستوں پر سے ایک مسافر وہاں اترگیا۔ لیکن گوسوامی نے خالی ہونے والی سیٹ پر خود قبضہ کرنے کے بجائے میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے اٹھارہ انیس سال کے دیہاتی نوجوان سے لگ بھگ تحکمانہ لہجے میں درخواست کی کہ وہ اگلی خالی سیٹ پر چلا جائے۔ نوجوان کچھ کسمسایا۔ لیکن گوسوامی سنتری سے ٹاکرے میں بس کے مسافروں پر ایسی دھاک بٹھا چکا تھا کہ وہ نوجوان زیادہ مزاحمت نہ کر سکا اور اپنی زادِ راہ کی پوٹلی سمیت اٹھ کر چلا گیا۔
یہ پیش رفت مجھے وقتی طور پر ناگوار لگی۔ لیکن میرے پاس اس صورتِ حال سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ گوسوامی میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور اپنی باتوں کے سیلاب کا رخ میری طرف موڑ دیا۔ کچھ ہی دیر میں میرا اضطراب کم ہونے لگا۔ کیونکہ اس نے مجھ سے کریدکرید کر معلومات اگلوانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ بس اپنے ہی بارے میں ادھر ادھر کی ہانکتا رہا۔ لیکن بس جیسے جیسے سفر طے کر رہی تھی۔ مجھے ایک فکر گھیرنے لگی تھی۔
میں نے اس گھاگ شخص کے سامنے انبالے کا ٹکٹ لیا تھا۔ میں راستے میں منڈی گوبند گڑھ اتر گیا تو اسے ضرور حیرت ہوگی اور منڈی گوبند گڑھ کا نام اس کے ذہن میں نقش ہو جائے گا۔ بعد میں کسی موقع پر پولیس نے میری کھوج لگانا چاہی تو یہ شخص ممکنہ طور پر میری اصل منزل کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ منڈی گوبند گڑھ کوئی بہت بڑا شہر نہیں ہے۔ خفیہ پولیس والے کڑی سے کڑی ملاکر ناصر کے ٹھکانے پر پہنچ سکتے ہیں۔ جہاں جمیلہ اور رخسانہ نے پناہ حاصل کر رکھی ہے اور ظہیر بھی وہاں آتا رہتا ہے۔
اس سے بھی پہلے یہ خطرہ میرے ذہن میں بار بار شک کا پھن اٹھارہا تھا کہ خود کو استاد ظاہر کرنے والا شخص دراصل خفیہ پولیس کا کارندہ ہے۔ جو شاید مجھے مشکوک سمجھ کر میرے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اگر میں اچانک منڈی گوبند گڑھ اترا تو یہ یقیناً اپنا شک درست سمجھتے ہوئے میرے پیچھے آئے گا۔
کافی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ چاہے وہ خفیہ پولیس والا ہو یا نہ ہو۔ مجھے اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے اس سے ہر قیمت پر پیچھا چھڑا لینا چاہیے۔
اس کا میرے نزدیک ایک ہی طریقہ تھا۔ منڈی گوبند گڑھ سے پہلے ہی کسی بڑے شہر یا قصبے کے مصروف بس اڈے پر میں رفع حاجت کا بہانہ کر کے بس سے نیچے اتروں اور غائب ہوجاؤں۔ اس کے بعد یہ شخص میرے بارے میں شکوک و شبہات پالتا رہے یا خفیہ پولیس والے کی حیثیت سے شکار شکنجے سے نکل جانے پر ہاتھ ملتا رہے۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
لیکن میں یہ امکان بھی نظرانداز نہیں کر سکتا تھا کہ گرداس سنہا کی طرح یہ شخص بھی میرے بس سے اترنے پر میرا پیچھا کرے گا۔ میں نے سوچا کہ اچھا ہے۔ اس کی یہ حرکت اس کا پول کھول دے گی اور میں اس سے بخوبی نمٹ سکوں گا۔
مزید پونے گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد بس جالندھر کے اڈے پر پہنچ کر رک گئی۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے میرے اندازے کے مطابق بس کو وہاں اچھی خاصی دیر رکنا تھا۔ میں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے نکتہ نظر سے بس اڈے کا جائزہ لیا۔ وہاں اچھی خاصی چہل پہل تھی۔ میں گوسوامی کو یہاں غچا دینے کی کوشش کرسکتا تھا۔
اس سے پہلے کہ میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچتا۔ گوسوامی نے مجھے مخاطب کیا۔ ’’چلو رجوانہ جی۔ اڈے پر اتر کے پاؤں سیدھے کرلیتے ہیں۔ ایک ایک پیالی چائے بھی پی لیں گے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں، ہاں ضرور۔ چائے کی طلب تو مجھے بھی ہو رہی ہے‘‘۔
میں خود کو چادر میں لپیٹتے ہوئے بس سے اترا۔ گوسوامی بھی میرے پیچھے پیچھے تھا۔ دو چار انگڑائیاں لینے اور ہلکی پھلکی ورزش کے انداز میں جسم کو حرکت دینے کے بعد ہم دونوں بس اڈے کی بڑی کینٹین کی طرف بڑھے۔ کنڈکٹر نے گوسوامی کو بتا دیا تھا کہ ہم اطمینان سے واپس آسکتے ہیں۔ کیونکہ ڈرائیور یہاں کھانا کھائے گا۔
دھوپ میں بچھی میزوں کے پاس لکڑی کی بینچوں پر بیٹھ کر گوسوامی نے بیرے کو دو چائے لانے کا حکم دیا۔ اس دوران میں میری نظریں ٹوائلٹس ڈھونڈ رہی تھیں۔ لیکن مجھے ایسی کوئی جگہ دکھائی نہیں دی۔ یہ اچھی بات تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے کسی الگ تھلگ، عام نظروں سے اوجھل جگہ جانے کا موقع ملے گا۔
میں نے اچانک اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’گوسوامی بھائی۔ آپ یہیں رکو۔ میں پیشاب کر کے دو منٹ میں واپس آتا ہوں‘‘۔ اس نے فوراً کہا۔ ’’یار مجھے بھی جانا ہے۔ تم نے اچھا یاد دلایا‘‘۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا۔ اس نے آواز لگاکر بیرے کو فی الحال چائے لانے سے روک دیا اور اٹھ کر میرے ساتھ چلنے کو تیار ہوگیا۔میں نے ایک ٹھیلے والے سے حاجت گاہ کا پوچھا اور ہم ایک عمارت کی طرف چل پڑے۔ میرا ذہن اس دوران تیزی سے سوچ رہا تھا۔ اسے جھانسا دے کر غائب ہونے کی میری کوشش بظاہر ناکام ہوگئی تھی۔ لیکن مجھے نظروں میں رکھنے کی کوشش کر کے اس شخص نے اپنے بارے میں میرے شکوک بڑھا دیئے تھے۔ باقی سفر میں مجھے اس سے غیر معمولی چوکنا رہنا ہوگا اور اس کی اصلیت کا پتا لگانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment