قیادت کی گرفتاری پر جماعت الدعوۃ عدالت سے رجوع کرے گی

امت رپورٹ
وفاقی حکومت نے اگر کالعدم جماعت الدعوۃ کی قیادت کو گرفتار کیا تو یہ تنظیم عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات پر فی الحال جماعت الدعوۃ خاموش ہے۔ کیونکہ وہ کسی قسم کا احتجاج یا قانونی چارہ جوئی کرکے حکومت کی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن اگر قیادت کو گرفتار کیا گیا تو عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ جماعت الدعوہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پابندی کے فیصلے پر قانونی ماہرین سے مشاورت کی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ منگل کو وفاقی حکومت نے حافظ محمد سعید کی سربراہی میں کام کرنے والی جماعت الدعوۃ اور رفاہی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو دہشت گردی ایکٹ کے شیڈول ون میں شامل کر دیا ہے اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی (نیکٹا) نے ترمیم شدہ فہرست جاری کر دی ہے۔ جس کے بعد نیکٹا کی فہرست میں شامل کالعدم تنظیموں کی تعداد 70 ہوگئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے نام نہاد پلوامہ حملے میں جماعت الدعوۃ کا نام نہیں لیا تھا، لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت نے بھارت کی خوشنودی کیلئے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ حکومت پاکستان کا نام فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس FATF میں شامل نہ ہوجائے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر جماعت الدعوہ اور ایف آئی ایف کے خلاف اب بھی کارروائی نہ کی جاتی تو خدشہ تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کردیتی۔ اس سے قبل نواز لیگ کی حکومت نے بھارت کی جانب سے ممبئی حملے میں ملوث ہونے کے الزام پر جماعت الدعوۃ پر پابندی عائد کردی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ نے 2018 ء میں یہ ختم کردی تھی اور جماعت الدعوۃ اور اس کی فلاحی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن کو فلاحی کام جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔ سپریم کورٹ کا دو رکنی بنچ جو جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل تھا اس نے یہ فیصلہ دیا تھا۔ یہی فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی کیا تھا، جس کے خلاف نواز لیگ کی حکومت سپریم کورٹ میں گئی تھی، کہ ان دونوں تنظیموں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ واضح رہے کہ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کے تحت 300 سے زائد تعلیمی ادارے، اسپتال، اشاعتی ادارے اور ایمبولنس سروس چلائی جاتی ہیں۔ ان اداروں میں 50 ہزار سے زائد رضاکار اور سینکڑوں تنخواہ دار ملازمین بھی کام کرتے ہیں۔ حکومتی فیصلے سے رفاہی ادارے کے ملازمین بیروزگار ہوگئے ہیں۔ ان تنظیموں پر پابندی کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ریاست ایف اے ٹی ایف کے تحت اقدامات کررہی ہے۔ کالعدم تنظیموں پر پابندی ملک کے مفاد میں ہے۔ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن پر پابندی کا فیصلہ جنوری میں ہوا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر 2014ء سے عمل جاری ہے، کچھ مالی وسائل کے باعث اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جاسکا۔ واضح رہے کہ مئی 2018ء میں بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کو اپنے انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کیخلاف کوئی ثبوت موجود نہیں، انہیں عدالت کی جانب سے بری کیا جاچکا ہے، وہ پاکستان کے شہری ہیں۔ پرتشدد کارروائیوں کے علاوہ انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب عالمی دبائو پر پاکستان کو اپنے ہی شہریوں کو دہشت گرد قرار دینا پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں فوجی اور سول قیادت کے درمیان ہونے والے فیصلے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی اجلاس ہوا تھا، جس میں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کو کالعدم قرار دینے کی منظوری دی گئی تھی۔ جبکہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔ قبل ازیں جب عدالتی حکم کی پابندی کرتے ہوئے ان دونوں تنظیموں کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکالا گیا تھا تو امریکہ نے سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے اس موقع پر کہا تھا کہ ان دونوں تنظیموں پر پابندی کا خاتمہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ساتھ تعاون کے پاکستانی اعلان سے متصادم ہے۔ ترجمان نے کہا تھا کہ امریکہ کو اس اقدام پر سخت تشویش ہے جو ان کے بقول اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 1267 کے خلاف ہے۔ امریکی حکومت کے ترجمان کے بقول عالمی ادارے کی یہ قرارداد ان دہشت گرد گروہوں کے اثاثے منجمد کرنے اور ان پر مالی وسائل اکٹھے کرنے یا انہیں منتقل کرنے پر پابندی سے متعلق ہے، جنہیں اقوامِ متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہو۔ پھر حکومتِ پاکستان نے فروری 2018ء میں انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں ترمیم سے متعلق ایک آرڈیننس جاری کیا، جس کے ذریعے ان شدت پسند تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی تھی جن پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔ اس آرڈیننس کو جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس کی سماعت کے دوران حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ آرڈیننس غیر موثر ہونے کی وجہ سے اب یہ دونوں جماعتیں کالعدم نہیں رہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق اگر صدر کی جانب سے جاری آرڈیننس کی قومی اسمبلی توثیق نہ کرے اور آرڈیننس میں توسیع بھی نہ کی جائے تو وہ خود بخود چار ماہ کے بعد غیر موثر ہوجاتا ہے۔ اب شاید یہ قانونی سقم دور کرلیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment