مرض کب دوا بنتا ہے؟

حضرت جنید بغدادیؒ کو طویل عرصے سے الہامی قسم کے خواب آتے رہے۔ یہ ایک منفرد انداز کی روحانی تربیت تھی۔ پھر اسی روحانی تربیت نے حضرت جنید بغدادیؒ کو سید الطائفہ بنا دیا۔ یہ آپؒ کا لقب تھا جس کا مفہوم ہے: ’’اپنے زمانے کے سرداروں کا سردار۔‘‘
ایک رات حضرت جنید بغدادیؒ نماز تہجد ادا کرنے کے لئے اٹھے۔ پھر جب آپؒ نے نیت باندھنے کا ارادہ کیا تو ایک ناقابل بیان اضطراب طاری ہوگیا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کمرے میں ٹہلنے لگے، مگر بے قراری کی وہ کیفیت ختم نہیں ہوئی۔ آخر آپؒ بستر پر جا کر لیٹ گئے اور غور کرنے لگے کہ اس بے چینی کا سبب کیا ہے؟
’’خداوند! میں نہیں جانتا کہ آج یہ بے سکونی کیوں ہے اور مجھے یکسوئی کیوں میسر نہیں ہے؟‘‘
یہ سوچتے سوچتے بہت دیر گزر گئی، مگر حضرت جنید بغدادیؒ کو کسی کروٹ چین نہیں آتا تھا۔ پھر یہ اضطراب وحشت میں تبدیل ہوگیا اور حضرت جنید بغدادیؒ گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئے اور کھلی فضا میں ٹہلنے لگے۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ آپؒ نے ایک شخص کو دیکھا، جو بیچ راستے میں چادر اوڑھے لیٹا تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کون شخص ہے، جو رات کے پچھلے پہر اس طرح سر راہ سو رہا ہے۔ آپؒ آہستہ قدموں سے آگے بڑھے، تاکہ سونے والے کی نیند میں خلل واقع نہ ہو۔ حضرت جنید بغدادیؒ دبے پاؤں گزر جانا چاہتے تھے، مگر جب آپؒ اس شخص کے قریب پہنچے تو وہ یکایک اٹھ کر بیٹھ گیا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کو اس شخص کے اس طرح بیدار ہو جانے پر بڑی حیرت ہوئی۔
پھر وہ آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگا: ’’ابو القاسم! آپ نے آنے میں اتنی دیر کی؟‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ اس شخص کی بات سن کر مجھ پر رعب سا طاری ہو گیا۔ پھر میں نے ذرا سنبھل کر اسے جواب دیا۔
’’مجھے کیا خبر تھی کہ آپ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہ آپ سے کوئی وعدہ تو نہیں تھا کہ جس کی پابندی مجھ پر فرض ہوتی؟‘‘
اس شخص نے کہا ’’ابو القاسم! آپ سچ فرماتے ہیں۔ مگر میں نے خداوند ذوالجلال سے جو دلوں کو حرکت دیتا ہے اور مقلب القلوب ہے، یہ دعا کی تھی کہ آپ کے دل کو حرکت دے کر میری جانب مائل کر دے۔‘‘
’’بے شک! حق تعالیٰ نے میرے دل کو آپ کی طرف مائل کردیا۔ مگر یہ تو بتایئے کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔ اس شخص نے کہا: ’’ابوالقاسم! میں ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں۔ یہ سوال مجھے کئی دنوں سے پریشان کر رہا ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ بہت غور سے اس شخص کا سوال سنتے رہے۔ سوال یہ تھا کہ ’’مرض نفس کب نفس دوا بن جاتا ہے؟‘‘
جب وہ شخص اپنی بات مکمل کر چکا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’جب انسان اپنی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے تو اس حالت میں نفس کا مرض ہی دوا بن جاتا ہے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ کا جواب سنتے ہی اس شخص نے اپنے دل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’میں نے تجھے سات بار یہی جواب دیا، مگر تو نے میری بات نہیں مانی۔ ہر مرتبہ یہی کہتا رہا کہ جب تک جنید نہیں کہیں گے، اس وقت تک نہیں مانوں گا۔ اب تو تُو نے سن لیا کہ جنید کیا کہتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ شخص تیز رفتاری کے ساتھ چلا گیا۔
حضرت جنید بغدادیؒ کچھ دیر تک حیرت وسکوت کے عالم میں کھڑے سوچتے رہے کہ وہ شخص کون تھا اور کہاں سے آیا تھا؟
حضرت جنید بغدادیؒ نے ارادتا کبھی کسی کرامت کا اظہار نہیں کیا، مگر بڑے بڑے مشائخ آپؒ کے روحانی تصرف کے قائل تھے۔ شیخ خیر نساجؒ، حضرت سری سقطیؒ کے مرید تھے اور حضرت جنید بغدادیؒ کے پیر بھائی۔ انہوں نے حضرت جنید بغدادیؒ کے ساتھ پیش آنے والا اپنا ایک عجیب واقعہ بیان فرمایا ہے۔ جو کہ حسب ذیل ہے: (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment