کوہستان ویڈیواسکینڈل 9 افراد کی جانیں لے چکا

امت رپورٹ
بدنام زمانہ کوہستان وڈیو اسکینڈل اب تک 9 افراد کی جانیں لے چکا ہے۔ گزشتہ روز ایبٹ آباد میں قتل کیا جانے والا افضل کوہستانی اس کیس کا مدعی تھا۔ اسی نے یہ معاملہ ہائی لائٹ کیا تھا اور وہ انصاف کے حصول کیلئے کوشاں تھا۔ مقتول افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر نے پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کرتے ہوئے قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ افضل کوہستانی نے وقوعہ والے روز بھی مقامی صحافیوں کو بتایا تھا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کی جانب سے درخواستیں دیئے جانے کے باوجود پولیس اور حکومت نے تحفظ فراہم نہیں کیا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق 2012ء میں رونما ہونے والا بدنام زمانہ کوہستان وڈیو اسکینڈل مدعی افضل کوہستانی سمیت 9 افراد کی جانیں لے چکا ہے، جس میں وڈیو میں نظر آنے والی چار لڑکیاں اور ان کی مددگار ایک کم عمر لڑکی بھی شامل ہے۔ 2013ء میں افضل کوہستانی کے تین بھائی بھی قتل ہوگئے، جن کا اس اسکینڈل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جس پر افضل کوہستانی نے مقدمہ درج کرایا تھا اور نامزد ملزماں کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے پھانسی اور عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان کو بری کر دیا تھا۔ اس سال کے آغاز میں سپریم کورٹ میں ثابت ہوا کہ تین لڑکیاں قتل کی جا چکی ہیں اور دو لڑکیوں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ لیکن وہ دو لڑکیاں بھی تاحال عدالت میں پیش نہیں ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق افضل کوہستانی نے دو شادیاں کی تھیں اور اس کے پانچ بچے ہیں۔ جبکہ وہ اپنے یتیم بھتیجوں کی بھی کفالت کر رہا تھا۔ افضل کوہستانی تین لڑکیوں کے قتل کا مقدمہ لڑ رہا تھا اور وقوعہ والے روز ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ میں پیشی کیلئے آیا تھا۔ وہاں اس نے مقامی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔
ایبٹ آباد کے صحافیوں زیبر ایوب، نعمان شاہ، محمد اشفاق اور دیگر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افضل کوہستانی نے بدھ کے روز اپنے قتل سے قبل انہیں بتایا تھا کہ اس کو دھمکیاں مل رہی ہیں اور اس کی زندگی کیلئے شدید خطرات ہیں۔ افضل نے بتایا تھا کہ سپریم کورٹ میں غیرت کے نام پر پانچ لڑکیوں کا قتل ثابت ہونے پر مذکورہ قبائل نے اس کو قتل کرنے کیلئے باقاعدہ اسکواڈ ترتیب دے دیئے ہیں۔ ان سب معاملات سے وہ پولیس کو مطلع کر چکا ہے، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ صحافیوں کے بقول افضل کوہستانی انتہائی مایوسی کا شکار تھا۔
انسانی حقوق کے کارکن تیمور خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افضل کوہستانی کا تعلق انتہائی کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اور اس کا خاندان کوہستان میں بہت دولت مند سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب سے افضل نے کوہستان وڈیو اسکینڈل کو اجاگر کیا تھا، اس کو اپنے آبائی علاقے پالس سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ تیمور کا کہنا تھا کہ افضل کوہستانی کو قتل کے مقدمے میں بھی پھنسایا گیا تھا، جس میں ایک سال سے زائد عرصہ قید کے بعد عدالت نے اس کو بری کر دیا تھا۔ افضل کے معاشی حالات بہت خراب ہوگئے تھے اور وہ کوئی چھوٹی موٹی ملازمت تلاش کر رہا تھا، تاکہ اپنے بال بچوںا ور مقتول بھائیوں کے بچوں کا پیٹ پال سکے۔ تیمور کا کہنا تھا کہ افضل کوہستانی کا قتل انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس پر سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت پولیس اور حکومت کو سوچنا ہوگا کہ یہ قتل کس نے اور کیوں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ویڈیو اسکینڈل کیس میں افضل کوہستانی کا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ حتیٰ کہ انسانی حقوق کی تنظمیں بھی آگے نہیں بڑھی تھیں۔
ادھر کوہستان وڈیو اسکینڈل میں نظر آنے والا افضل کوہستانی کا بھائی بن یاسر، جس کو افضل نے کئی سال تک حفاظت کے پیش نظر پوشیدہ رکھا تھا، جمعرات کے روز منظر عام پر آگیا ہے۔ بن یاسر اس موقع پر انتہائی رنجیدہ تھا۔ اس کے ہمراہ افضل کوہستانی کے چند حامی بھی موجود تھے، انہوں نے افضل کے قتل پر احتجاجاً تھانہ کینٹ ایبٹ آباد کے گیٹ پر دھرنا بھی دیا۔ بن یاسر نے اس موقع پر ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ… ’’ہمیں پولیس کی تفتیش پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ پہلے بھی ہمیں عدلیہ سے انصاف ملا تھا اور اب بھی ہمیں عدالت سے انصاف ملنے کی امید ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ افضل کوہستانی کے قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے‘‘۔
افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر نے مقتول افضل کی لاش وصول کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ پولیس اس کے بھانجے فیض الرحمان کو افضل کوہستانی کے قتل میں پھنسا رہی ہے۔ تاہم رات گئے پولیس سے مذاکرات کے بعد مقتول کے بھائی اور اس کے ساتھی میت وصول کر کے تدفین کیلئے لے گئے تھے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment