بھارت سے شہید ماہی گیر اور 3 زخمیوں کی حوالگی کا مطالبہ

امت رپورٹ
بھارتی بحریہ کی درندگی کا شکار ہونے والے ٹھٹھہ کے ماہی گیروں کے ورثا نے بھارت سے شہید ماہی گیر کی میت اور 3 زخمیوں کو فوری حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ 5 فروری کو پاک بھارت سمندری بارڈر کے قریب بھارتی بحریہ نے پاکستانی ماہی گیروں کی لانچ پر اندھا دھند فائرنگ کر دی تھی، جس کے نتیجے میں ایک ماہی گیر شہید اور تین شدید زخمی ہوگئے تھے۔ جبکہ 8 ماہی گیروں نے لانچ سے چھلانگ لگانے کے بعد بھارتی حدود میں واقع سانولو کریک نامی جزیرے میں چھپ کر جان بچائی تھی۔ فائرنگ سے بچ جانے والے ماہی گیروں نے بتایا کہ بھارتی بحریہ کے اہلکار ماہی گیر غلام رسول کی لاش جزیرے پر پھینک کر 3 زخمی ماہی گیروں کو لانچ سمیت ساتھ لے گئے تھے۔ متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کے بعد انصار برنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ انصار برنی ایڈووکیٹ نے ہلاک ماہی گیر کی لاش اور زخمیوں کی حوالگی کے بارے میں اقدامات کیلئے پاکستانی وزارت خارجہ کو خط تحریر کیا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور بھارتی وزارت خارجہ کو بھی خطوط ارسال کیے ہیں اور شہید ماہی گیر کی میت اور زخمیوں کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کا آغاز کئی ماہ قبل ہو چکا تھا۔ بھارتی نیوی اور سمندری حدود کی حفاظت پر مامور دیگر اداروں کی جانب سے ٹھٹھہ، بدین اور کراچی کے ماہی گیروں کو ہراساں کیا جارہا تھا۔ گزشتہ ماہ 5 فروری کو ٹھٹھہ سجاول کے گاؤں اتھرکی کے 12 ماہی گیر کشتی پر شکار کیلئے گئے تھے۔ وہ پاکستانی سمندری حدود میں شکار کرتے ہوئے راستہ بھٹک کر بھارتی حدود کے قریب چلے گئے۔ اسی دوران بھارتی بحریہ اور کوسٹ گارڈز کی اسپیڈ بوٹس وہاں پہنچ گئیں۔ بھارتی اہلکاروں نے پاکستانی ماہی گیروں کی لانچ کو اسلحہ کے زور پر اپنی حدود میں لے جانے کی کوشش کی اور ناکامی پر نہتے ماہی گیروں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ جس سے چار ماہی گیر زخمی ہوگئے۔ بعد ازاں بقیہ آٹھ ماہی گیر اپنی لانچ میں بھارتی حدود میں واقع جزیرے سانولو کریک تک پہنچ گئے اور لانچ سے کود کر دلدلی جنگل میں چھپ گئے۔ بھارتی نیوی کے اہلکار تعاقب کرتے ہوئے ادھر پہنچ گئے۔ اس دوران ایک زخمی ماہی گیر غلام رسول دم توڑ چکا تھا۔ بھارتی اہلکاروں نے اس کی لاش جزیرے پر پھینک دی اور لانچ سمیت تین زخمی ماہی گیروں کو ساتھ لے کر چلے گئے۔ 8 ماہی گیر جزیرے میں پانچ روز تک چھپے رہے۔ بھوک پیاس اور شدید سردی سے ان کی حالت غیر ہوگئی تھی۔ وہ لوگ 9 فروری کو تیرتے ہوئے پاکستانی سمندری حدود میں آئے۔ جہاں شکار کرنے والے ہم وطن ماہی گیروں نے انہیں اتھرکی گاؤں پہنچایا۔ جان بچاکر آنے والے ماہی گیروں نے غلام رسول کے نابینا والد انگاریو کو بتایا کہ ان کا بیٹا بھارتی نیوی کی فائرنگ سے ہلاک ہو چکا ہے۔ انگاریوں شوگر کا مریض ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی ایک ٹانگ ناکارہ ہوچکی ہے۔ اکلوتے بیٹے غلام رسول کی ہلاکت کی خبر سن کر ماں کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اب وہ بستر پر پڑی ہے۔ انگاریو کا کہنا ہے کہ غلام رسول گھر کا واحد کفیل تھا۔ اس اندوہناک واقعے کے باوجود سندھ حکومت کے ادارے فشریز اور فشر کوآپریٹو سوسائٹی سمیت کسی نے بھی مظلوم خاندان کی کوئی مدد نہیں کی ہے۔ تاہم چند روز قبل انصار برنی ٹرسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق انصار برنی ایڈووکیٹ تحصیل شاہ بندر کے گاؤں لیموں ملاح پہنچے تو جان بچا کر آنے والے ماہی گیروں نے انہیں تمام تفصیلات بتائیں۔ ذرائع کے مطابق اس واقعہ کے بعد پورے گائوں میں بھارت کے خلاف شدید اشتعال پھیلا ہوا ہے۔ ماہی گیروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شہید ماہی گیر غلام رسول کی لاش اور تین زخمی ماہی گیروں کی حوالگی کیلئے بھارت پر زور ڈالا جائے اور متاثرہ خاندانوں کی فوری مدد کی جائے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے رابطہ کرنے پر انصار برنی ٹرسٹ کے بانی انصار برنی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بھارتی بحریہ کی درندگی کا نشانہ بننے والے ماہی گیر کی لاش تاحال جزیرے پر پڑی ہے، جبکہ بھارتی اہلکار 3 زخمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ہم امن کی بات کر رہے ہیں، لیکن بھارت ہمیں لاشیں دے رہا ہے۔ بھارتی بحریہ کی اس دہشت گردی کو وہ دنیا کے سامنے لائیں گے۔ انصار برنی نے بتایا کہ اس واقعہ کے حوالے سے انہوں نے پاکستانی وزارت خارجہ، بھارتی وزارت خارجہ اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو خطوط بھیجے ہیں۔ جن میں ایک پاکستانی ماہی گیر کی لاش اور تین زخمیوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بھارت ہماری امن کی کوششوں کو کمزوری نہ سمجھے اور فوری طور پر گرفتار ماہی گیروں کو رہا کرے۔ شہید ماہی گیر غلام رسول کا نابینا والد اکلوتے بیٹے کی ہلاکت پر زندہ درگور ہوگیا ہے‘‘۔
کو سٹل میڈیا سینٹر کے ذمہ دار کمال شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ واقعہ 5 فروری کی شام کو پیش آیا تھا۔ پانچ دن بعد 9 فروری کو 8 ماہی گیر بری حالت میں سجاول کے علاقے اتھرکی پہنچے تھے جنہوں نے اس واقعہ کی تفصیلات بتائی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غلام رسول کی لاش اب بھی بھارتی جزیرے سانولو کریک میں موجود ہے اور ورثا لاش کی حوالگی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment