حجاج نے پوچھا: حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
سعید بن جبیرؒ نے فرمایا: ’’وہ صدیق ہیں، رسول اقدسؐ کے خلیفہ ہیں، انہوں نے سعادت کی زندگی بسر کی، دنیا سے قابل رشک انداز میں رخصت ہوئے، نبیؐ کے طریقے پر چلے، نہ اس میں کسی قسم کی کمی کی، نہ زیادتی اور نہ ہی اس کو تبدیل کیا۔‘‘
حجاج نے پوچھا: ’’(حضرت) عمرؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
فرمایا: ’’وہ فاروق ہیں، جن کے ذریعے خدا تعالیٰ نے حق اور باطل کے درمیان فرق کیا، وہ خدا کے برگزیدہ اور رسول اقدسؐ کی مراد ہیں۔ (یعنی حضور اکرمؐ نے رب تعالیٰ سے دعا مانگ کر ان کو اسلام کے لیے قبول کروایا)۔ انہیں رب تعالیٰ سے مانگا تھا، وہ زندگی بھر رسول اقدسؐ اور صدیق اکبرؓ کے راستے پر چلے، آپؓ نے زندگی بھر قابل فخر کارنامے سرانجام دیئے، قابل رشک زندگی بسر کی اور شہادت حاصل کی۔‘‘
حجاج نے پوچھا: ’’(حضرت) عثمانؓ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
فرمایا: ’’وہ جیش عسرہ کو تیار کرنے والے۔ (جیش عسرہ سے مراد غزوۃ تبوک ہے، جب سخت گرمی کا زمانہ تھا، فصل کی کٹائی بھی نہیں ہوئی تھی اور مسلمانوں کے پاس آلات حرب بھی کم تھے، اوپر سے سواریوں کی بھی خوب کمی تھی، اس وقت حضورؐ نے مسلمانوں سے چندے کی اپیل کی تھی۔ اس موقع پر حضرت عثمان غنیؓ نے سو اونٹ کا تحفہ دیا تھا)۔ مدنیہ منورہ میں بئر رومہ (کنواں) کو خرید کر وقف کرنے والے۔ جنت میں اپنا گھر بنانے والے۔ رسول اکرمؐ کی دو بیٹیوں کے شوہر بن کر ذوالنورین کا اعزاز حاصل کرنے والے ہیں۔ ان کی شادی نبی اکرمؐ نے خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق کی۔ پھر آخر میں ظلم و ستم کا نشانہ بنا کر شہید کردیئے گئے۔‘‘
حجاج نے پوچھا: ’’حضرت علیؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
فرمایا: ’’وہ رسول اقدسؐ کے چچا زاد بھائی ہیں، مسلمانوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے، سیدہ فاطمہ زہرائؓ کے خاوند، اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار حسنؓ اور حسینؓ کے والد۔‘‘
حجاج نے پوچھا: ’’بنوامیہ میں سے تجھے کون سا خلیفہ پسند ہے؟‘‘
فرمایا: ’’جو اپنے خالق کو سب سے زیادہ راضی کرنے والا ہو۔‘‘
حجاج نے پوچھا: ’’ان میں سے کون اپنے خالق کو سب سے زیادہ راضی کرنے والا تھا؟‘‘
فرمایا: ’’اس کا علم اس ذات کو ہے جو ان کے ظاہر و باطن کو برابر جانتی ہے۔‘‘
حجاج نے پوچھا: ’’میرے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
فرمایا: ’’تو اپنے بارے میں زیادہ جاننے والا ہے۔‘‘
حجاج نے کہا: ’’میں تمہاری رائے اپنے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
فرمایا: ’’میرے رائے تجھے اچھی نہیں لگے گی۔‘‘
حجاج نے کہا: ’’میں ضرور سننا چاہتا ہوں۔‘‘
فرمایا: ’’میری معلومات کے مطابق تو کتاب الٰہی کا مخالف ہے اور ایسے کام کرتا ہے جس سے تیرا رعب و دبدبہ چھا جائے اور یہ انداز تجھے ہلاکت کی طرف لے جا رہا ہے، آخر کار تجھے یہ جہنم میں دھکیل دے گا۔‘‘
حجاج نے یہ باتیں سنتے ہی آگ بگولہ ہو کر کہا: ’’خدا کی قسم! میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا۔‘‘
فرمایا: ’’تو میری دنیا خراب کر دے گا، میں تیری آخرت برباد کر دوں گا۔‘‘
حجاج نے کہا: ’’تم اپنے قتل کے لیے جون سا طریقہ پسند کرتے ہو، اس کو اختیار کرو۔‘‘
فرمایا: ’’اے حجاج! بلکہ تو اپنے قتل کا طریقہ پسند کر، خدا کی قسم! جس انداز سے تو مجھے قتل کرے گا وہی انداز قیامت کے روز تجھے قتل کرنے کا اختیار کیا جائے گا۔‘‘
حجاج نے پوچھا: ’’کیا تو چاہتا ہے کہ میں تجھے معاف کر دوں؟‘‘
فرمایا: ’’اگر ایسا بھی ہوا تو وہ معافی خدا کی جانب سے ہو گی، تو مجھے چھوڑ کر اپنے گھنائونے جرم سے بری نہ ہو سکے گا۔‘‘
حجاج بن یوسف غصے سے آگ بگولہ ہوا اور دربان سے کہا: ’’اے لڑکے! تلوار اور چمڑے کی چادر لے آئو۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭