یہ سن 613ھ کا واقعہ ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے ہاتھوں بیت المقدس کی آزادی کو بمشکل دو دہائیاں پوری ہو رہی ہیں۔ مسلمان گھرانوں میں صلیبی جنگوں کے قصے عام ہیں۔ جنگ حطین کے مناظر ابھی تک لوگ نہیں بھولے، ان چوبیس پچیس برسوں میں ایک نئی نسل نوجوان ہوئی ہے، وہ اپنے آباء و اجداد کی بہادری کے قصے سن چکے ہیں۔
دوسری طرف صلیبی اپنی ذلت آمیز شکست کے بعد پوری طرح انتقام کی تیاریوں میں ہیں، حطین اور القدس کا زخم ابھی تک ہرا ہے۔ اپنی پوری قوت کو جنگ میں جھونکنے کے بعد بھی شکست کا غم انہیں کھائے جا رہا ہے اور ان کی نئی نسل اپنے آباء و اجداد کی ذلت آمیز شکست کا انتقام لینے کے لیے بے چین ہے۔ دونوں طرف میں فرق یہ ہے کہ ایک طرف کی نئی نسل فتح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غفلت کا شکار اور خوش فہمی میں مبتلا ہے اور دوسری طرف
شکست کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سبق سے مسلح۔ صلیبیوں نے شکست کے بعد بڑی گہرائی سے شکست کے اسباب کو سوچا، آئندہ کے لیے اپنے تئیں ایک مضبوط لائحہ عمل طے کیا۔ انہوں نے ہر جہت سے جنگ کا جائزہ لیا۔ تمام پہلوئوں پر غور کیا اور خاص طور پر ان پہلوئوں پر غور کیا گیا، جن کے باعث مسلمان غالب اور صلیبی مغلوب ہوگئے تھے۔
انتہائی راز دارانہ طریقے سے مکمل تیاری کے بعد صلیبیوں نے اچانک مسلمانوں پر دھاوا بول دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے کئی بڑے علاقے صلیبیوں کے زیر نگین آگئے اور یوں لگنے لگا کہ بس اب چند دنوں کی بات ہے کہ القدس دوبارہ صلیبیوں کے قبضے میں ہوگا۔ مسلمان علاقوں میں خوف اور پریشانی کی لہر دوڑ گئی، خطرے کی اس گھنٹی کے پیش نظر مسلمان امراء نے مختلف اطراف میں تیاریاں شروع کی تھیں، لیکن حالات میں ابال اور جذبات میں تلاطم اس وقت آیا جب مسلمان خواتین نے میدان میںکودنے کا فیصلہ کیا۔
ہوا یوں کہ کچھ خواتین نے معاملے کی حسّاسیت کا ادراک کیا اور دیکھا کہ معاملے کو وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جتنی دینی چاہئے۔ معاملہ القدس اور پوری امت مسلمہ کی غیرت کا ہے، ہمیں القدس کو واپس لینے میں نوے سال لگے تھے، کیا صلیبی صرف دو دہائیوں میں واپس لے لیں گے؟ انہوں نے دیکھا کہ تیاری اس سے کئی گنا زیادہ ہونی چاہئے۔ ہمت اور غیرت کا ماحول اس سے کئی گنا بڑھ کر ہونا چاہئے۔ چنانچہ اس کے لیے انہوں نے عجیب و غریب طریقہ اپنایا۔ انہوں نے اپنے بالوں کو کاٹا اور اپنے ہی بالوں کی رسیاں بنائیں اور پھر علاقے کے سب سے نامور اور پرجوش خطیب کا انتخاب کیا۔ علامہ یوسف سبط ابن جوزیؒ (مشہور عالم علامہ ابن جوزیؒ کا نواسہ) ان کے پاس بھیجیں اور کہا مجاہدین ان رسیوں کو اپنے گھوڑوں کی لگامیں بنالیں۔ بس پھر کیا تھا قیامت برپا ہوگئی۔ علامہ یوسف سبط ابن جوزیؒ ویسے بھی خطابت کے بے مثل بادشاہ تھے۔ اپنے نانا کی طرح یہ بھی دلوں کو موہ لینے کا فن خوب جانتے تھے۔ ان کی ایک ایک مجلس میں سینکڑوں لوگ تائب ہوتے تھے۔
جب بالوں کی یہ رسیاں ان کے پاس پہنچیں تو ان کے اندر آگ لگ گئی، وہ جامع مسجد اموی میں تشریف لے گئے۔ رسیاں ان کے ہاتھ میں تھیں اور تقریر شروع کی۔ تقریر کیا تھی، آگ لگا دی۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ زمین و آسمان کی فضاء بدل گئی، اب لوگوں کے لیے گھروں میں ٹھہرنا محال ہوگیا، پورے ملک میں نصرت دین کی ایک نئی فضا بن گئی۔ رفتہ رفتہ اس نے میدان میں فضائے بدر کی صورت اختیار کرلی اور خدا کی نصرت اتری۔ صلیبیوں کو شکست فاش ہوئی جو علاقے انہوں چھین لیے تھے، وہ واپس لے گئے اور ان کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ (تاریخ الاسلام، حوادث 613ھ)
سبط ابن جوزی علامہ یوسف بن قزعلی بہت بڑے حنفی عالم ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مشہور عالم علامہ ابن جوزیؒ کے نواسے ہیں۔ دادا حنبلی، مگر نواسے حنفی تھے۔ علامہ طنطاویؒ نے اس قصے کو اپنی کتاب ’’قصص من التاریخ‘‘ میں ذکر کیا ہے اور وہاں اس خطبے کا ذکر بھی کیا ہے لیکن وہ خیالی خطبہ ہے، حقیقی نہیں۔
٭٭٭٭٭