معارف و مسائل
اس سے پہلے یہ واقعہ ہوچکا تھا کہ رسول اقدسؐ نے مدینہ طیبہ پہنچ کر حکیمانہ سیاست کے مقتضیٰ پر سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ مدینہ طیبہ میں اور شہر کے آس پاس کچھ یہودکے قبائل آباد تھے، ان سے معاہدئہ صلح اس پر کرلیا تھا کہ یہ لوگ نہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے اور نہ کسی جنگ کرنے والے کی امداد کریں گے۔ اگر ان پر کوئی حملہ آور ہوا تو مسلمان ان کی امداد کریں گے۔ صلح نامہ میںاور بھی بہت سی دفعات شامل تھیں۔ جن کی تفصیل سیرت ابن ہشام وغیرہ میں مذکور ہے۔ اسی طرح یہودکے تمام قبائل کی جن میں بنو نضیر بھی داخل تھے۔ مدینہ طیبہ سے دو میل کے فاصلے پر ان کی بستی اور مضبوط قلعے اور باغات تھے۔
غزوئہ احد تک تو یہ لوگ بظاہر اس صلح نامہ کے پابند نظر آئے۔ مگر احد کے بعد انہوں نے غداری کی اور خفیہ خیانت شروع کردی۔ اس غدر و خیانت کی ابتدا اس سے ہوئی کہ بنونضیر کا ایک سردار کعب بن اشرف غزوئہ احد کے بعد اپنے یہودیوں کے چالیس آدمیوں کے ایک قافلے کے ساتھ مکہ معظمہ پہنچا اور یہاں کے کفار قریش جو غزوئہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کی نیت سے غزوئہ احد پر گئے تھے اور اس میں بالآخر شکست کھاکر واپس ہوچکے تھے، ان سے ملاقات کی اور دونوں میں رسول اقدسؐ اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا ایک معاہدہ ہونا قرار پایا۔ جس کی تکمیل اس طرح کی گئی کہ کعب بن اشرف اپنے چالیس یہودیوں کے ساتھ اور ان کے بالمقابل ابوسفیان اپنے چالیس قریشیوں کے ساتھ حرم شریف میں داخل ہوئے اور کعبہ شریف کا پردہ پکڑ کر یہ معاہدہ کیا کہ ایک دوسرے کاساتھ دیں گے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭