محمد نعمان اشرف/ اطہر فاروقی
وفاقی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث کراچی سمیت پورے ریجن میں گیس کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ کراچی میں رہائشی و کمرشل ضروریات کو ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی کے بجائے محض 500 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کرکے چلایا جارہا ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ اور پریشر میں کمی کی وجہ سے ہوٹل مالکان کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ امت سروے میں صارفین نے تبدیلی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ہوٹلوں کے کاروبار سے وابستہ سینکڑوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ لاکھوں روپے کے گیس بل ادا کرنے کے باوجود گیس نہ ملنے سے پریشان صارفین پھٹ پڑے۔
وفاقی حکومت اور سوئی سدرن گیس کمپنی کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے صوبے بھر کے صارفین کو شدید اضطراب سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ صنعتی علاقوں کو بلا تعطل گیس کی فراہمی یقینی بنانے کے فیصلے کے بعد گھریلو صارفین کو ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے بجائے محض 400 ایم ایم سی ایف ڈی فراہم کی جارہی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ساؤتھ ریجن کیلئے موسم سرما میں 1500ایم ایم سی ایف ڈی سے زائد گیس درکار ہے۔ جبکہ گیس کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ان دنوں 1200 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے۔ ذرائع سے حاصل اعداد و شمار کے مطابق سوئی سدرن کو گیس فراہم کرنے والی دو گیس فیلڈز، گمبٹ اور کنڑ پتافی سے یومیہ 120 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پیداواری کمی کا سامنا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کیلئے 250 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جارہی ہے۔ جبکہ عام دنوں میں محض 50 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جاتی تھی۔ سوئی گیس حکام کے مطابق کوئٹہ اور گرد و نواح میں سوئی گیس لائف لائن کا کردار ادا کررہی ہے، لہٰذا وہاں سے گیس کٹوتی کسی صورت ممکن نہیں۔ اسی طرح کیپٹیو (انڈسٹریز ) اور سی این جی کے لیئے 350 سے 400 ایم ایم سی ایف ڈی گیس نکالی جارہی ہے جس کے بعد گھریلو صارفین کو محض 520 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ سندھ کے دیہی علاقے تو سالہا سال سے گیس پریشر میں کمی کا سامنا کررہے ہیں۔ تاہم سردی میں درجہ حرارت کم سے کم اوسطً 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے پر شہری علاقے بھی گیس بندش کی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں جن میں حیدرآباد، سکھر، سانگھڑ، ٹنڈو آدم، ٹنڈو الہ یار، نواب شاہ، سعید آباد، ہالہ و دیگر شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ شہر کے ایک بڑے حصے میں سی این جی ڈسٹری بیوشن کے روز گیس کی مکمل لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ جبکہ بعض علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 5 سے 10 گھنٹے تک پہنچتا ہے۔ دوسری جانب سی این جی فلنگ اسٹیشنز، شادی ہالوں اور فوڈ اسٹریٹس کے اطراف کے علاقوں میں گیس کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے شہری شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو جمعہ کے روز شہر کے مختلف علاقوں کے رہائشیوں سے کھانا پکانے کے اوقات میں گیس بندش کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ کورنگی اور سائٹ انڈسٹریل ایریا کے اطراف کے علاقوں میں گیس بالکل ہی بند ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اولڈ سٹی ایریا، شیرشاہ، بلدیہ، بنارس، کورنگی و دیگر علاقوں میں گیس پریشر میں حد درجہ کمی کا سامنا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بڑی تعداد میں شہریوں نے چولہے میں گیس نہ ہونے پر لکڑیوں پر کھانا بنانا شروع کردیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ گیس پریشر میں کمی کی وجہ سے اولڈ سٹی ایریا، بلدیہ، شیر شاہ، گارڈن، صدر، کورنگی، اورنگی، بنارس، قائد آباد، لانڈھی، نارتھ کراچی، نیو کراچی سمیت پوش علاقوں پی ای سی ایچ ایس، گلشن اقبال، گلستان جوہر و دیگر علاقے متاثر ہیں۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان اسٹیٹ آئل کے ریکارڈ میں 74 سے زائد سی این جی فلنگ اسٹیشن صرف کراچی میں واقع ہیں۔ جبکہ ایس ایس جی سی کے ریکارڈ کے مطابق 650 سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی متبادل دنوں میں کی جاتی ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے متاثرہ علاقوں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ کھانے بنانے کے اوقات میں گیس کا پریشر نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ جبکہ بجلی کے جاتے ہی کم پریشر ملنے والی گیس سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ کورنگی اور لانڈھی میں واقع غیر قانونی طور پر گھروں میں قائم کارخانوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتے ہی کارخانے گیس جنریٹرز پر کام جاری رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے گھریلو صارفین کو گیس نہیں ملتی۔ علاقہ مکینوں کے مطابق گیس جنریٹرز کم پریشر کے ساتھ بھی آسانی سے استعمال ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے مکین بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
گیس بحران نے کاروباری زندگی مفلوج کرکے رکھ دی ہے۔ معروف فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ کے دکاندار لاکھوں روپے گیس بل ادائیگی کے باوجود گیس کے مطلوبہ پریشر سے محروم ہیں۔ ہوٹل مالکان یومیہ ہزاروں روپے کے گیس سلنڈر استعمال کررہے ہیں۔ کراچی میں جاری گیس بحران نے جہاں گھریلو صارفین کو اذیت میں مبتلا کرر رکھا ہے وہیں گیس پریشر میں کمی نے شہر کی معروف فوڈ اسٹریٹس کو بھی ویران کردیا ہے۔ گیس نہ ہونے کے باعث رات دیر گئے تک کھلنے والے ہوٹلز اب 12 بجتے ہی بند ہوجاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے کراچی کی قدیم اور معروف فوڈ اسٹریٹ برنس روڈ کا سروے کیا گیا۔ اسی دوران مشاہدے میں آیا کہ یہاں کھانے پینے کے سیکڑوں چھوٹے بڑے ہوٹلز اور دکانیں موجود ہیں، جہاں ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ ملحقہ آبادی میں بھی گزشتہ 4 ماہ سے گیس پریشر میں کمی کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے گھریلو صارفین4 ماہ سے ہوٹلوں سے ناشتے اور کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ برنس روڈ پر موجود معروف ہاٹ اینڈ پیزا ریسٹورنٹ کے کاؤنٹر پر موجود محمد ارشد نے بتایا کہ گزشتہ 4 ماہ سے گیس پریشر میں کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے 50 فیصد کاروبارمتاثر ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیس پریشر میں کمی کے باعث سلنڈر استعمال کرنا پڑرہا ہے جو مہنگا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑا سلنڈر ساڑھے 6 ہزار روپے میں فل ہوتا ہے اور یومیہ 15ہزار روپے کے گیس سلنڈر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رواں ماہ 90 ہزار روپے گیس کے بل کی ادائیگی کے باوجود گیس میسر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گیس غائب ہونے پر ہیلپ لائن پر متعدد کالز کرتا ہوں لیکن عملہ جھوٹی تسلیاں دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے ہمارا کاروبار تباہ کردیا ہے۔ میں موجودہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ گیس بحران کا فوری طور پر نوٹس لیا جائے بصورت دیگر کئی افراد کے بر روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ وحید کباب ہائوس کے مالک عرفان نے بتایا کہ گیس نہ ملنے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہمارا کاروبار کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 40 فیصد کاروبار متاثر ہوگیا ہے اور اگر گیس بحران اسی طرح چلتا رہا تو کاروبار مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ ملک ہوٹل کے گل احمد نے بتایا کہ 4 ماہ سے گیس کا مسئلہ حل ہوکر نہیں دے رہا ہے۔ متعلقہ اداروں کو کئی بار شکایت درج کروائی۔ وہ سروے کرکے جاتے ہیں لیکن مسئلہ حل نہیں کرتے۔
گیس کی بندش اور پریشر میں کمی کی وجہ سے متاثرہ دیہاڑی دار مزدوروں نے بھی وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کئی ہوٹل مالکان نے دیہاڑی دار مزدور کم کردیئے جس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ سروے کے دوران دیہاڑی دار مزدوروں کا کہنا تھا کہ مالکان کا کاروبار متاثر ہونے کے باعث مزدوروں کو یومیہ دہاڑی دینے میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ برنس روڈ پر ہوٹلوں میں کام کرنے والے ہزاروں مزدور ان دنوں شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ وقت پر دہاڑی نہ ملنے اور مالکان کی طرف سے نکالے جانے کی وجہ سے سے درجنوں مزدور آج کل روزگار تلاش کررہے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو کیفے لذیذ کے ذمہ دار طارق نے بتایا کہ گیس پریشر میں کمی کے باعث 50 فیصد کاروبار متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیفے لذیذ میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 20سے زائد ہے جن کو یومیہ دیہاڑی پر رکھا ہوا ہے۔ آغا سجی ریسٹورنٹ کے ذمہ دار خالد نے بتایا کہ یومیہ ہزاروں روپے کے گیس سلنڈر استعمال کررہے ہیں جس کی وجہ سے کاروبار میں بہت زیادہ فرق پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے مزدوروں کو وقت پر دیہاڑی دینا مشکل ہورہا ہے جبکہ بعض ہوٹل مالکان نے تو دیہاڑی پر رکھے گئے ملازمین سے معذرت بھی کرلی ہے۔ کاشف نامی مزدور نے بتایا کہ وہ گزشتہ 10سال سے برنس روڈ پر مزدوری کررہا ہے لیکن اب ہوٹل میں پہلے جیسا کام نہیں ہے، جس کی وجہ سے دیہاڑی میں بھی کمی آگئی ہے۔
اولڈ سٹی ایریا کی دوسری فوڈ اسٹریٹ کھارادر میں ہے جہاں باکڑا گلی میں ہوٹلوں کی بھرمار ہے تو اسٹار ڈرگز پولیس چوکی کے اطراف درجنوں فاسٹ فوڈ سینٹرز موجود ہیں۔ سروے کے دوران مشاہدے میں آیا کہ کھارادر کے اطراف گیس بندش نے کاروبار شدید متاثر کردیا ہے۔ ہفتے میں 4 دن گیس بند ہونے سے کاروباری افراد کو ماہانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ کھارادر میں صبح 10بجے سے شام 4 بجے تک گیس غائب رہنا معمول بن گیا ہے۔ کھارادر فوڈ اسٹریٹ پر موجود الرحمنٰٰ بریانی کے مالک حیات محمد نے بتایا کہ ہفتے میں 4 روز گیس غائب رہنا معمول بن گیا ہے جس سے پکائی میں فرق آرہا ہے اور گاہکوں کی طرف سے شکایت مل رہی ہے۔ وہیں پر موجود سعید محمد دین نے بتایا کہ ان کا الکوئٹہ ہوٹل کئی برسوں سے اسی جگہ پر واقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی تبدیلی نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہفتے میں 4دن گیس غائب رہنا معمول ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں ماہ 84 ہزار روپے گیس بل کی ادائیگی کی تھی۔ کھارادر کا معروف ریسٹورنٹ باکڑا ہوٹل بھی گیس بندش کی وجہ سے تباہی کے دہانے پرپہنچ گیا ہے۔ کائونٹر پر موجود شہباز یوسف نے بتایا کہ یومیہ 6 ہزار روپے کا سلنڈر استعمال کررہا ہوں جس کی وجہ سے کاروبار بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دن کے اوقات میں تو گیس مکمل طور پر غائب رہتی ہے۔ تاہم شام ہوتے ہی گیس ملنا شروع ہوجاتی ہے جس کا پریشر انتہائی کم ہوتا ہے۔ جہانزیب نامی دکاندار نے بتایا کہ میں چائے کا کاروبار کرتا ہوں اور یومیہ 3 ہزار روپے کا سلنڈر بھروانے پر مجبور ہوں۔
مشاہدے میں آیا کہ ایک بڑی تعداد میں مکین گھروں کیلئے کھانے پینے کی اشیا خرید رہے تھے۔ ’’امت‘‘ نے مذکورہ افراد سے بات کی تو مکینوں نے گیس نہ ہونے کا شکوہ کیا۔ مکینوں نے بتایا کہ کھارادر کے زیادہ تر مکین اطراف کے علاقوں سے صبح ناشتے کا انتظام کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ صبح سویرے گیس غائب رہنا معمول بنتا جارہا ہے۔ الغو ثیہ حلوہ پوری دکان میں موجود محمد عمران نے بتایا کہ علاقہ مکین صبح حلوہ پوری کیلئے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ گیس نہ ہونے سے وقت پر مکینوں کو حلوہ پوری فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے مکین لیاری اور صدر کا رخ کرلیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گیس شام 4 بجے بحال ہوتی ہے جس میں کوئی مکین حلوہ پوری کیلئے رخ نہیں کرتا۔ اضرار گل نے بتایا کہ میں چائے کا کاروبار گزشتہ کئی برسوں سے کھارادر کی حدود میں کرتا آرہا ہوں۔ لیکن اس بار گیس کا بحران پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر ہمیں بے روزگار کردیا ہے۔
’’امت‘‘ کو سوئی سدرن گیس حکام نے بتایا کہ سوئی گیس کے 30 لاکھ سے زائد صارف ہیں اور بیک وقت 30 لاکھ چولہوں کے جلنے کی وجہ سے پریشر میں کمی کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے بھر میں 1500 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی مانگ ہے۔ تاہم 1200 ایم ایم سی ایف ڈی فراہم کی جارہی ہے، جبکہ 300 ایم ایم سی ایف ڈی سے زائد قلت کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس ایس جی سی نے تمام صارفین کو گیس کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے شیڈول بھی ترتیب دے رکھا ہے جس کے مطابق متبادل دنوں میں سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی اور اتوار کے روز صنعتی علاقوں میں گیس کی فراہمی نہیں کی جائے گی تاکہ رہائشی علاقے متاثر نہ ہوں۔ اس سلسلے میں ترجمان نے جمعہ کو جاری بیان میں کہا کہ ایس ایس جی سی کے گیس سسٹم میں پریشر میں کمی کی وجہ سے سوئی سدرن کو میسر ہونے والی گیس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس لیئے گھریلو صارفین اور کمرشل سیکٹر کی طلب پوری کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ گھریلو صارفین کی طلب پوری کرنے کیلئے سندھ بھر میں آج تمام سی این جی اسٹیشنز کو صبح 8 بجے سے رات 8 بجے تک گیس کی ترسیل معطل رہے گی۔
٭٭٭٭٭