اراکین اسمبلی کے دبائو پر سی پیک کے 24 ارب روپے نکالنے کا فیصلہ

وجیہ احمد صدیقی
وزیراعظم عمران خان نے دبائو میں آکر سی پیک کے 24 ارب روپے اراکین اسمبلی کو دینے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے الیکٹ ایبلز کا استعمال کیا تھا۔ اب وہ الیکٹ ایبلز ماضی کی طرح ترقیاتی اسکیمیں چاہتے ہیں، تاکہ وہ اپنے انتخابی اخراجات کو پورا کر سکیں۔ ذرائع کے مطابق 22 جنوری کو پی ٹی آئی کا اتحادی جماعتوں کا ایک اجلاس ہوا، جس میں وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے وعدہ کیا تھا کہ ارکان اسمبلی کو فنڈز نہیں، بلکہ ترقیاتی اسکیمیں دی جائیں گی۔ آئندہ پارلیمانی اجلاس میں ارکان اسمبلی کے ترقیاتی منصوبوں اور درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے گا۔ پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے اس مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں وزیرِ منصوبہ بندی خسرو بختیار نے سی پیک سمیت وزارت کی کارکردگی پر بریفنگ دی تھی، جس پر اراکین نے سوال کیا تھا کہ ان کا کیا حصہ ہوگا۔ اس موقع پر ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے علاقے کی ترقیاتی اسکیموں کو بھی پیش کیا۔ جس پر پرویز خٹک نے کہا کہ ارکان اسمبلی کے ترقیاتی منصوبوں اور مسائل کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔ مسائل کے حل پر پیش رفت کا آئندہ اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔ بعد ازاں ان اراکین اسمبلی کی جانب سے دبائو بڑھنے لگا کہ وہ اب زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکتے۔ جس پر وزیر اعظم عمران خان نے ان سے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کا ترقیاتی منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے ان کی اخلاقی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ عمران خان نے کہا ’میں اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا حامی نہیں ہوں۔ بوجھل دل کے ساتھ اراکین کو پہلی اور آخری بار ہر حلقے میں 15 کروڑ روپے جاری کر رہا ہوں‘۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے یہ اعلان پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کیا اور کہا تھا کہ ارکان اسمبلی حلقہ کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ فنڈز اور نوکریوں کے سہارے پر سیاست نہ کریں۔ لیکن نہ ان کے الیکٹ ایبلز مانے اور نہ ہی اتحادی اس پالیسی سے خوش نظر آئے۔ اس لئے ذرائع کے بقول وزیر اعظم نے سی پیک کے 27 ارب روپے میں سے 24 ارب روپے اراکین اسمبلی کی ترقیاتی اسیکموں کیلئے مختص کرنے کا فیصلہ کیا تو وزارت خزانہ ان کی راہ میں آگئی کہ وزیر اعظم ایسا نہیں کر سکتے۔ ذرائع نے بتایا کہ وزارت خزانہ کے بعد وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے کہا گیا وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی کے افسران اب سیاست دانوں کے ساتھ شریک جرم نہیں ہونا چاہتے۔ تحریک انصاف ان فنڈز کو سیاسی رشوت قرار دیتی رہی ہے۔ وزارت منصوبہ بندی سے جڑے ذرائع کے مطابق پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کا ستمبر 2018ء میں جائزہ لیا گیا، جس میں وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات نے سی پیک سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کے لئے 27 ارب روپے مختص کئے تھے۔ جس کا مقصد ملک کی اکثریتی معیار زندگی کو بہتر بنانا تھا۔ یہ بجٹ تعلیم، صحت، پینے کا پانی، کھیت سے منڈی تک سڑکوں کی بہتری، گیس، بجلی سمیت دیگر منصوبوں کیلئے مختص کیا گیا تھا، تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ 2018-19ء میں سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگراموں کیلئے 800 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ جبکہ حکومت نے نظرثانی کے بعد 675 ارب روپے مختص کئے، جس میں سی پیک پراجیکٹس کے لئے کوئی کٹوتی نہیں کی گئی۔ ترجمان وزارت منصوبہ بندی نے بتایاکہ یہ پروگرام مقامی لوگوں کی امنگوں کے مطابق پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں مدد دے گا۔ اگلے مالی سال سے حکومت علاقائی مساوی ترقی کے نام سے صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے ایک پروگرام شروع کرے گی، جس کا مقصد ملک کے کم ترقی یافتہ اضلاع کی متوازن اور مساوی ترقی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ترجمان وزارت منصوبہ بندی نے وضاحت کی کہ سی پیک سے متعلقہ منصوبوں کے وسائل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کا پروگرام ایک طرف شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور دوسرا یہ کہ اس سے اقوام متحدہ سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ یاد رہے کہ ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کیلئے ماضی میں جو ترقیاتی فنڈز دیئے جاتے تھے، وہ اصل میں حکومتوں کی طرف سے دی جانے والی سیاسی رشوت ہوتی ہے۔ جو ہر سیاسی حکومت اپنے اور اپنے حامی ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کو دیتی آئی ہے۔ جبکہ اپوزیشن کو یہ فنڈ نہیں دیے جاتے یا کم اور آخر میں دیئے جاتے ہیں۔ یہ فنڈ ملنے کے بعد ارکان اسمبلی اور سینیٹرز ماضی میں ترقیاتی کام اپنے مخصوص حلقوں اپنے سیاسی مفاد کیلئے اپنے من پسند ٹھیکیداروں کے ذریعے کراتے رہے اور اپنا کمیشن بھی وصول کرتے رہے۔ بعض ترقیاتی کام صرف فائلوں میں ہوئے اور مختص رقم ہڑپ کر لی گئی۔ سڑکیں اور ترقیاتی کام افسران کی ملی بھگت سے کاغذوں میں ہوئے اور بلوں کی ادائیگی بھی کر دی گئی۔ عوام کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ ان کے نام پر کس کس نے رقوم بٹور لیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment