بابری مسجد ہندوئوں کے حوالے کرنے کے لئے بھارتی عدلیہ کا نیا پینترا

نذر الاسلام چودھری
بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد ہندئووں کے حوالے کرنے کیلئے نیا پینترا اختیار کیا ہے۔ کیس پر خود انصاف کرنے کے بجائے تین رکنی ثالثی کمیٹی کا اعلان کرکے اس میں انتہاپسند ہندو رہنما سادھو شری روی شنکر کو شامل کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ کمیٹی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے، بابری مسجد کے تنازعہ کا حل نکالے۔ واضح رہے کہ سادھو شری روی شنکر، رام مندر بنانے کا زبردست حامی ہے۔ ادھر مجلس اتحادالمسلمین سمیت مختلف مسلم جماعتوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے اس فیصلے پر اظہار عدم اعتماد کیا ہے۔ ثالثی کمیٹی کے اعلان سے قبل سپریم کورٹ آف انڈیا کے بینچ نے بابری مسجد کیس کے وکلا کے روبرو کہا تھا کہ سپریم کورٹ اس کیس میں خود سے فیصلہ دے سکتی ہے، لیکن وہ معاملے کی حساسیت اور دونوں فریقین کے جذبات کو دیکھتے ہوئے اس کیس کو ثالثی کی مدد سے حل کرنا چاہے گی۔ اگر یہ مصالحتی کوششیں ناکام ہوئیں تو پھر سپریم کورٹ اس سلسلہ میں اپنا فیصلہ دے گی، چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ 6 مارچ کو سپریم کورٹ میں بابری مسجد کیس کے فیصلہ کے روز مسلم فریقین اور وکلا نے بھارتی عدالت عظمیٰ سے کہا تھا کہ اس کیس کا مصالحت کی رو سے حل ہونا، ناممکن ہے کیوں کہ فریق مخالف (ہند ومہا سبھا اورتمام انتہاپسند ہندو تنظیمیں) بابری مسجد کی جگہ ہر قیمت پر ’’رام مندر ‘‘بنانا چاہتی ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کا کہنا تھا کہ ثالثی کمیٹی میں سادھو شری روی شنکر اور سینئر وکیل رام پنچو کے ساتھ ایک مسلمان ثالث فقیر خلیف اللہ کو شامل کرکے بظاہر بھارتی مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن سادھو شری روی شنکر ماضی میں بابری مسجد کو ہندوئوں کے حوالہ کرنے کی وکالت کرچکے ہیں۔ سادھو روی شنکر کے سابقہ مصالحتی فارمولا کے مطابق ایودھیا میں پوری ’’متنازعہ‘‘ زمین کو رام مندر بنانے والوں کے حوالہ کردیا جانا چاہئے اور فیض آباد سے کچھ فاصلہ پر مسلمانوں کیلئے ایک قطعہ اراضی مختص کردیا جائے جہاں بابری مسجد کی یاد میں ایک مسجد تعمیر کی جائے۔ تاہم بھارتی مسلم کمیونٹی نے اس فارمولے کو احمقانہ قرار دے کر ناقابل عمل بتایا تھا۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ گرو شری روی شنکر نے گزشتہ ہفتے ہی اتر پردیش کے متعصب وزیر اعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ کے ساتھ ایک طویل ملاقات بھی کی تھی اور اسی روز اتر پردیش حکومت نے فیض آباد ضلع کا نام تبدیل کرکے سرکاری کاغذات میں ’’ایودھیا‘‘ رکھ دیا۔ ثالثی کمیٹی میں سادھو شری روی شنکر کی نامزدگی کا معروف مسلم رہنما اور مجلس اتحاد المسلمین کے سربرا ہ اسد الدین اویسی نے سخت برا منایا ہے اور کہا ہے کہ شری شنکر جیسے متعصب شخص کو سپریم کورٹ آ ف انڈیا نے مصالحتی کمیٹی میں شامل کرکے سخت مایوس کیا ہے۔ شری روی شنکر وہی سادھو ہے جس نے ببانگ دہل کہا تھا کہ اگر مسلمانان ہند، بابری مسجد کے دعوے سے دستبردار نہیں ہوں گے تو بھارت دوسرا شام بن سکتا ہے۔ اسد الدین اویسی نے مطالبہ کیا ہے کہ سادھو روی شنکر کو فوری طور پر اس مصالحتی کمیٹی سے نکال کر کسی غیر جانبداراور قابل قبول شخصیت کو ثالث بنایا جائے۔ یاد رہے کہ 2010ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کی اراضی مسلمانوں اور رام مندر اکھاڑے سمیت ’’رام جی کی جائے پیدائش کمیٹی‘‘ میں تین ٹکڑوں میں بانٹنے کا حکم دیا تھا۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی اپیل کی سماعت کیلئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کی سربراہی سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس گوگوئی، مسٹر جسٹس ایس اے بوبڈے، مسٹرجسٹس اشوک بھوشن، مسٹر جسٹس ڈی چندرا چوڑ اور مسٹر جسٹس ایس عبدالنذیر کررہے تھے۔ لیکن پے درپے سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا کے اس لارجر بینچ نے خود انصاف کرنے کے بجائے اس کیس کو ثالثی کیلئے پیش کردیا ہے۔ بھارتی جریدے دی ہندو نے واضح کیا ہے کہ انصاف کیلئے ہندو مہا سبھا اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی جانب سے کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس کیس پر انصاف کے قوانین کے تحت فیصلہ کریں۔ لیکن بھارتی سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے خود مبنی بر انصاف فیصلہ کے بجائے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اس کیس کو ثالثی کمیٹی کے گلے کاہار بنا دیا ہے۔ بھارتی چیف جسٹس مسٹر جسٹ گوگوئی کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں بابری مسجد کیس کے حل کیلئے ثالثی کمیٹی بنانے میں کوئی قانونی رکاوٹ درپیش نہیں ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment