جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے پابندی کے خلاف بھرپور مزاحمت کا فیصلہ کرلیا۔ جماعت اسلامی کی قیادت اور ضلعی و تحصیل سطح کے رہنمائوں کی گرفتاری کے باوجود مودی سرکار کے غیر قانونی اقدام کے خلاف عوامی تحریک چلائی جائے گی۔ مقبوضہ وادی میں انتہائی کامیاب شٹر ڈائون ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں نے ثابت کر دیا ہے کہ جماعت اسلامی عوام میں انتہائی مقبول ہے اور عوام اس ناروا پابندی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ دوسری جانب جموں و کشمیر میں اسکولز اور کالجز چلانے والی ایک بڑی تنظیم نے جماعت اسلامی پر پابندی اور اس کے تعلیمی و فلاحی ادارے بند کئے جانے کے خلاف احتجاجاً اپنے ادارے بھی بند کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔
سوشو اکنامک کو آرڈی نیشن کمیٹی کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کے تحت سینکڑوں اسکول و کالجز میں لاکھوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
گزشتہ روز (جمعہ کو) پورے مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی، اس کی قیادت کی گرفتاری اور حریت رہنمائوں کو نظر بند کئے جانے کے خلاف شٹر ڈائن ہڑتال کی گئی، جبکہ نماز جمعہ کے بعد مختلف مقامات پر ہزاروں افراد کے اجتماعات میں ظالم بھارتی فورسز اور انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج کی کال سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کی جانب سے دو روز قبل ایک مشترکہ بیان میں دی گئی تھی۔ انتظامیہ نے اس احتجاج کو روکنے کے لئے سری نگر کے متعدد علاقوں میں صبح سے ہی اضافی فورسز تعینات کر دی تھیں، تاکہ احتجاج کرنے والے افراد اور نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ تاہم بھارتی فورسز کی تعیناتی کے باوجود نماز جمعہ کے بعد بڑی تعداد میں کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ بھارتی فورسز کے ظالمانہ قبضے کے علاوہ بھارتی آئین کی شق 35 اے میں تبدیلی کی کوشش، جماعت اسلامی پر پابندی اور حریت رہنمائوں سید علی گیلانی، یاسین ملک اور میر واعظ محمد فاروق کی نظر بندی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس دوران بھارتی فورسز اور کشمیری عوام کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئیں۔ آنسو گیس کی شیلنگ سے درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے۔ لیکن عزم و ہمت کی داستانیں رقم کرنے والے کشمیری عوام نے جوابی پتھرائو کر کے بھارتی فورسز کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ واضح رہے کہ سید علی گیلانی 2010ء سے گھر پر نظر بند ہیں۔ جبکہ میر واعظ عمر فاروق کو پرسوں چند روز کی آزادی کے بعد ایک بار پھر گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
دوسری جانب جموں و کشمیر سوشو اکنامک کو آر ڈی نیشن کمیٹی (JKSECC) جس کے مقبوضہ وادی میں سینکڑوں اسکولز، کالجز و تعلیمی ادارے ہیں اور جن میں لاکھوں کشمیری طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر کے اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس نے جماعت اسلامی پر پابندی اور اس کے فلاحی و تعلیمی اداروں کی بندش پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور ان پر سے فوری پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوشو اکنامک کو آر ڈی نیشن کمیٹی نے گزشتہ روز سری نگر میں اپنے اجلاس میں تمام تر صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اعلان کیا کہ اگر انتظامیہ نے جماعت اسلامی جیسی دینی و فلاحی تنظیم پر پابندی نہ اٹھائی اور اس کے تعلمی و فلاحی اداروں کو نہ کھولا تو احتجاجاً وہ بھی اپنے اسکولز اور مراکز بند کر دے گی اور اس کے ادارے اس وقت تک بند رہیں گے، جب تک جماعت اسلامی پر سے پابندی اٹھا نہیں لی جاتی۔ ذرائع کے مطابق مکمل طور پر غیر سیاسی اور کسی سے سیاسی وابستگی نہ رکھنے والی یہ کمیٹی بھی اگر جماعت اسلامی کے وابستگان کے ساتھ احتجاج میں شریک ہو گئی اور اس نے اپنے ادارے بند کر دیئے تو یقیناً مودی سرکار کیلئے یہ ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ کیونکہ سوشو اکنامک کو آر ڈی نیشن کمیٹی کے تعلیمی ادارے بند ہونے سے کشمیری بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت سرکار پر عائد ہوگی۔ تحریک حریت کانفرنس کے چیئرمین اشرف صحرائی نے بھی جماعت اسلامی پر پابندی کی مذمت کی ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت نے دنیا بھر کے اسلامی ممالک، تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں، یو این او اور اسلامی کانفرنس کو خطوط اور مراسلے لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی کی فلاحی و اصلاحی خدمات ، بھارتی فورسز کے مظالم اور اب جماعت اسلامی پر عائد غیر قانونی، غیر انسانی پابندی کے پس پردہ محرکات و حقائق کے علاوہ یہ پابندی اٹھانے کے لئے انہیں اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت نے اپنے اجلاس میں اس ساری صورت حال پر تفصیلی غور و خوض کے بعد وزارت خارجہ پاکستان سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’امت‘‘ کو اپنے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے پابندی کیخلاف جہاں بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے، وہیں بھرپور مزاحمت کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی عوام میں بالخصوص نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہے۔ جماعت کی قیادت اور ضلع و تحصیل کے ذمہ داران و عہدیداروں کی گرفتاری کے باوجود اس کا تنظیمی نیٹ ورک فعال ہے۔ ہر علاقے میں اس کے سینکڑوں کارکنان ہیں، جو پابندی کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ اس کا ایک ثبوت جمعہ کے روز سری نگر سمیت کئی اضلاع میں عوام کا سخت احتجاج ہے، جسے روکنے میں بھارتی فورسز ناکام رہیں۔ احتجاج کا یہ سلسلہ مزید بڑھے گا اور عوامی تحریک کی شکل اختیار کرکے مودی سرکار کو ہزیمت پر مجبور کر دے گا۔
جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر پر پابندی کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے کی تصدیق جماعت اسلامی پاکستان نے بھی کی۔ آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کے امیر شیخ عقیل احمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بھارت تحریک آزادی کشمیر کی حمایت میں بولنے پر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے خلاف تمام اوچھے ہتکھنڈے استعمال کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو نہ صرف گرفتار کیا گیا، بلکہ ان کے گھروں کو بھی سیل کیا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے اہل خانہ کو گھروں سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ اب ان کے اہلخانہ نے جن گھروں میں پناہ حاصل کی، وہاں پر بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں اور گھروں میں پناہ دینے والے مردوں کی بھی بڑی تعداد کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ خواتین پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے‘‘۔ ایک سوال پر شیخ عقیل احمد کا کہنا تھا کہ مودی سرکار جماعت اسلامی سے خوف زدہ ہے اور وہ کوشش کر رہی ہے کہ جماعت اسلامی جو بہترین نسل تیار کر رہی ہے، اس کا سلسلہ روکا جا سکے۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر پر نظر ڈالیں تو بڑے واضح طو رپر پتا چلتا ہے کہ جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ نوجوان اس وقت ہر شعبے میں آگے ہیں اور بھارت سمجھتا ہے کہ جب تک جماعت اسلامی کو کام سے نہیں روکا جاتا، اس وقت تک مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو روکا نہیں جاسکتا‘‘۔ شیخ عقیل احمد نے بتایا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز جماعتیں بھی جماعت اسلامی پر پابندی کی مخالفت کر رہی ہیں۔ پورے بھارت کے اندر جمہوریت پسند اور انصاف پسند عوام بھی مخالفت کر رہے ہیں اور اسے مودی کی آمریت قرار دے رہے ہیں۔ اب جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ مزاحمت کرے گی اور یہ مزاحمت جمہوری انداز میں ہوگی، جس کی اجازت اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں دے رکھی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی پابندی کے فیصلے کو چیلنج کر چکی ہے۔جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختون کے نائب امیر محبوب الہیٰ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی کے بعد جو تحریک چلی ہے، اس نے بھارت کو دن میں تارے دکھا دیئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی انتہائی منظم ہے۔ اسے عوام کی بڑی تعداد کا ساتھ حاصل ہے۔ بالخصوص نوجوان، طلبا و طالبات جماعت اسلامی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، لیکن بھارتی حکومت اس احتجاج پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ مودی حکومت جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ہزاروں، لاکھوں حمایتیوں کو مشتعل کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ یہ لوگ مشتعل ہوں۔ جماعت اسلامی مشتعل نہیں ہوگی، لیکن مزاحمت ضرور کی جائے گی، جس کی نوعیت مکمل طور پر جمہوری ہوگی اور ساری دنیا کو نظر آئے گی۔
ادھر خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کشمیر میڈیا سروس کے تحقیقاتی سیل نے مقبوضہ وادی میں کشمیری خواتین اور بچیوں پر مظالم کی تفصیل جاری کی ہے۔ جس کے مطابق جنوری 1989ء سے جب موجودہ تحریک شروع ہوئی 22 ہزار 899 خواتین بیوہ ہو گئیں۔ بھارتی فوج نے ہزاروں خواتین سے ان کے بیٹے ان سے جدا کر دیئے۔ 11 ہزار 113 خواتین کو بے آبرو کیا گیا۔ 8 جولائی 2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد ہزاروں طلبا و طالبات سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلے۔ رپورٹ کے مطابق اس احتجاج کے دوران اٹھارہ ماہ کی بچی حبا ناصر اور 32 سالہ نصرت جہان سمیت کئی خواتین اور بچیوں کی آنکھیں پیلٹ گنوں سے زخمی ہوئیں۔ جبکہ انشاء مشتاق اور افرا شکور سمیت 70 خواتین بینائی سے مکمل محروم ہو گئیں۔
٭٭٭٭٭