مادام خالدہ ہملٹن (KHALIDA HAMILTON) کا تعلق انگلینڈ کے ایک اونچے سیاسی گھرانے سے ہے۔ وہ مارکوئیس کرزن آف کیڈلسٹن اور سرفرانس لی کی چچا زاد تھیں۔ وہ جرمنی میں پیدا ہوئیں اور اپنے علمی و ادبی ذوق کی وجہ سے معروف تھیں۔ وہ انگریزی کے علاوہ جرمن اور فرنچ پر بھی عبور رکھتی تھیں… قبول اسلام کے بعد وہ برطانیہ کی ’’مسلم سوسائٹی‘‘ کی صدر بھی منتخب ہوئیں اور عرصے تک اس منصب پر فائز رہیں۔ اپنے قبول اسلام کی داستان بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا:
’’آبائی طور پر میرا تعلق چرچ آف انگلینڈ سے تھا، بلکہ انگلستان کا طبقۂ اشرافیہ اسی مذہبی مسلک سے وابسطہ رہا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد میرا ذہن کبھی بھی’’چرچائیت‘‘ CHURCHIANITY)) کے عقاید سے اتفاق نہیں کر سکا۔ کفارہ، الوہیت مسیحؑ، شفاعت، اعتراف گناہ، عشائے ربانی، بپتسمہ اور اس نوعیت کی دیگر مذہبی رسوم میرے شعور کو کبھی بھی اپیل نہ کر سکیں اور یہ سب کچھ مجھے حضرت مسیحؑ کی اصل تعلیمات کے برعکس محسوس ہوتا تھا۔ میرا وجدان کہتا تھا کہ یہ عقاید کسی سچے پیغمبر کے نہیں ہو سکتے، جو عقل عامہ (کامن سنس) کے خلاف ہیں اور قابل عمل بھی نہیں ہیں۔
لندن کی ووکنگ مسجد کی سادگی اور حسن سے متاثر ہو کر بلکہ اپنے ذوق سے مجبور ہوکر تین برس قبل میں نے ایک روز اس مسجد کی سیاحت کی۔ اس طرح پہلی بار مسلمانوں سے میرا رابطہ اور تعارف ہوا اور اس کے بعد میں وقتاً فوقتاً مسجد کے نائب امام عبد الخالق خاں سے اسلام کے بارے میں سوالات کرتی رہتی۔ اس مقصد کی خاطر میں نے انہیں مختلف وقتوں میں اپنے گھر ساؤتھ سی (SOUTH SEA) بھی بلوایا۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ خان صاحب نے اسلامی تعلیمات کی جس طرح وضاحت کی، اس نے مجھے بڑا متاثر کیا۔ ان کا اسلوب وضاحت جدید ترین (ماڈرن) اور سائنسی انداز کا تھا اور میرے ذہن اور نفسیات کے عین مطابق تھا۔ مزید اطمینان کے لئے میں بعد میں بھی ووکنگ مسجد جاتی رہی، جہاں مسلمانوں کے طریق عبادت نے بھی مجھے بہت متاثر کیا۔ بے حد سادگی، اخلاص اور عاجزی… عبادت کے اس رنگ نے میرے دل کو موہ لیا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہی دین دین فطرت ہے، خدا کا سچا پیغام ہے۔ چنانچہ ایک روز میں نے کلمۂ شہادت پڑھا اور مسلمان ہوگئی۔
میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ اسلام کے تصور توحید نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک ایک ہے، جو ہر لمحہ اپنی ساری مخلوقات پر نگران ہے اور ہماری تقدیر کا تعین کرتا ہے۔ اس نے ساری دنیا کی ہر چیز کے لئے ایک ضابطہ اور رہنما اصول وضع فرمائے ہیں اور انسان کو فکر و عمل کی آزادی دینے کے ساتھ اسے دنیا و آخرت کی سچی کامیابی کے لئے ہدایت کی نعمت بھی عطا کی ہے اور یہ نعمت اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی ہے… انسان اگر اس نعمت اور ہدایت سے بے نیاز ہو جائے اور زندگی گزارنے کا خود کوئی ضابطہ تیار کرے گا تو اسے ناکامی، بے اطمینانی اور پریشانی کے سوا کچھ نہ ملے گا… بنی نوع انسان کی صدیوں کی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ جب بھی قوموں یا انسانوں نے مکمل خود مختاری اختیار کی ہے اور خدائی ہدایت ہے بے نیازی کا مظاہرہ کیا ہے، انہیں خسارے اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ملا… اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی میرے ضمیر اور فطرت کی یہی آواز تھی کہ تثلیت یعنی تین خداؤں کا تصور احمقانہ سوچ ہے۔ خدا کو وحدت و مرکزیت کا حامل ہونا چاہئے، اسے ناقابل تقسیم ہونا چاہئے۔ اسلام کے مطالعے سے میرا ضمیر مطمئن ہوگیا کہ خدا وحدہٗ لا شریک ہے اور کسی بھی حوالے سے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
یورپ کے دیگر ممالک کی طرح انگلینڈ کے لوگ بھی اسلامی تعلیمات اور شعائر کے بارے میں غیر منصفانہ انداز میں بے رحمی سے گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن تثلیث کے مقابلے میں وہ اسلام کے تصور توحید پر کبھی بات نہیں کرتے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ اس موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ حقیقت کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے ضمیر کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں… کاش یورپ کے ممالک احساس کرتے کہ توحید سے دور ہو کر اور شرک کو اختیار کرکے وہ روحانی اور تمدنی اعتبار سے کتنے بڑے خسارے سے دو چار ہوئے ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭