گلوکار کو درجہ ولایت عطا ہوا

حضرت جنید بغدادیؒ کی عارفانہ شان یہ تھی کہ آپؒ بڑے بڑے مشائخ کیلئے مرکز قلب و نظر تھے۔ ایک دن آپؒ جامع مسجد بغداد میں حاضر تھے کہ ایک اجنبی شخص آیا اور وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کرنے لگا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اس پر نظر ڈالی اور ذکر میں مشغول ہوگئے، پھر وہ شخص نماز پڑھ کے مسجد کے ایک گوشے میں چلا گیا۔ اتفاق سے حضرت جنید بغدادیؒ کی نظر اس کی طرف اٹھی تو آپؒ نے دیکھا کہ وہ شخص اشارے سے بلا رہا ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کسی تامل کے بغیر اس کے پاس چلے گئے۔ اس دوران وہ شخص مسجد کے فرش پر لیٹ چکا تھا، جب حضرت جنید بغدادیؒ اس کے قریب آئے تو وہ معذرت خواہانہ لہجے میں بولا۔
’’ ابو القاسم! معاف کرنا! میں آپ کے احترام میں اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتا، مجبوری ہے۔‘‘
’’اس تکلیف کی ضرورت نہیں، آپ اپنا کام بتائیے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے جوابا فرمایا۔
’’خدا جل شانہ سے ملاقات کا وقت آگیا ہے۔‘‘ اس شخص نے نہایت پر شوق لہجے میں کہا۔
حضرت جنید بغدادیؒ کو بہت حیرت ہوئی کہ اس کے چہرے سے بیماری تو کجا نقاہت کے بھی آثار نمایاں نہیں تھے، پھر بھی وہ کہہ رہا تھا کہ اس کا وقت قریب آگیا ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اجنبی شخص کی بات سن کر سکوت اختیار کیا، شاید اس لئے کہ کسی انسان کو اپنی موت کا وقت معلوم نہیں ہوتا۔
’’ابو القاسم! جب میں دنیا سے چلا جاؤں اور میری تجہیز و تکفین مکمل ہو جائے تو میرا یہ خرقہ، چادر اور مشکیزہ ایک شخص کے حوالے کر دینا۔‘‘ اجنبی شخص نے کہا۔
’’وہ کون ہوگا؟ اور میں اسے کیسے پہچانوں گا؟‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا۔
’’اس سلسلے میں آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں، وہ خود پہچان لے گا۔‘‘
اس شخص نے کہا۔ ’’وہ ایک نوجوان مغنی (گانے والا) ہے، میری یہ امانت اس کے سپرد کردینا۔‘‘
’’تمہارا خرقہ مغنی کے حوالے کر دوں؟‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے حیران ہو کر پوچھا۔ آپؒ کو اس بات پر حیرت تھی کہ نغمہ و موسیقی سے تعلق رکھنے والا شخص خلافت کا حقدار کس طرح ہو سکتا ہے؟
’’ابو القاسم! آپ کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ حق تعالیٰ ہمارے اندازوں سے زیادہ بے نیاز اور رحیم و کریم ہے۔ اسی نے اس مغنی کو یہ رتبہ عطا فرمایا ہے۔‘‘
ابھی حضرت جنید بغدایؒ قدرت کے رازوں پر حیران ہو ہی رہے تھے کہ اس شخص نے با آواز بلند کلمہ طیبہ پڑھا اور ہوا کے تیز جھونکے کی طرح دنیا سے رخصت ہوگیا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اجنبی شخص کی تدفین کی۔ پھر اس کام سے فارغ ہو کر دوبارہ مسجد میں تشریف لائے اور اس شخص کا انتظار کرنے لگے، جو مرنے والے کی امانت کا حق دار تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک نوجوان مسجد میں داخل ہوا اور حضرت جنید بغدادیؒ کو سلام کر کے کہنے لگا:
’’تم نے مجھے کیسے پہچانا؟‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ کو ایک بار پھر حیرت ہوئی۔ اس لئے اس نوجوان سے پوچھا۔
’’یہ بھی کوئی مشکل بات ہے؟‘‘ نوجوان مغنی نے نہایت مؤدبانہ لہجے میں عرض کیا۔
’’میں لاکھوں انسانوں کے ہجوم میں پہچان سکتا ہوں کہ شیخ جنید کون ہیں؟ آپ کا چہرہ مبارک ہی آپؒ کی پہچان ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نوجوان مغنی کے طرز کلام سے بہت متاثر ہوئے۔ پھر آپؒ نے فرمایا: ’’نوجوان! تمہیں کیوں کر خبر ہوئی کہ تمہاری امانت میرے پاس ہے؟‘‘
نواجوان مغنی نے عرض کیا: ’’میں چند درویشوں کی صحبت میں بیٹھا تھا کہ اچانک ہاتف غیب نے صدا دی۔ شیخ جنید کے پاس جاؤ اور اپنی امانت لے لو۔ اس شخص کی جگہ تم ابدال مقرر کئے گئے ہو۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے مرنے والے کی تمام چیزیں نوجوان کے سپرد کردیں۔ مغنی نے اسی وقت غسل کیا، خرقہ پہنا، حضرت جنید بغدادیؒ کا شکریہ ادا کیا اور ارض شام کی طرف چلا گیا۔
نوجوان مغنی کے جانے کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے نہایت رقت آمیز لہجے میں فرمایا: ’’اے ذات بے نیاز! تو ہی مالک کُل ہے اور سارے خزانے تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہیں۔ تو مختار ہے، جسے جس طرح چاہے سرفراز کر دے اور جسے جس طرح چاہے ذلیل و رسوا کر دے۔ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment