امت رپورٹ
کراچی میں پی ایس ایل میچوں کے آغاز پر شہریوں میں زبردست جوش و خروش نظر آیا۔ کرکٹ لورز کیلئے نیشنل اسٹیڈیم چھوٹا پڑگیا، تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ ہزاروں شائقین کئی گھنٹے قبل لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے کے بعد اسٹیڈیم کے اندر پہنچے۔ دوسری جانب انتہائی سخت سیکورٹی اقدامات کے باعث شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اسٹیڈیم کے عقبی علاقوں کی سڑکوں، اسٹیڈیم آنے والی 4 سڑکوں اور شاہراہ فیصل کی بار بار بندش کے نتیجے میں اطراف کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہوتا رہا۔ پی ایس ایل ایونٹ کے باعث کراچی کے شہریوں کو 9 روز تک ٹریفک جام کا عذاب سہنا ہوگا۔ شائقین کو اسٹیڈیم میں موبائل فون اور کھانے پینے کی اشیا لانے سے منع کیا گیا تھا اور اس پر سختی سے عمل بھی کرایا گیا، جس شہری ناراضگی کا اظہار کرتے رہے۔ گرین لائن پروجیکٹ اور دیگر تعمیراتی کاموں کی وجہ سے شہر میں پہلے ہی ٹریفک جام کے مسائل تھے تاہم اب کرکٹ ایونٹ کی وجہ سے سیکورٹی اقدامات نے کراچی کے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے اور یہ سلسلہ 17 مارچ کو فائنل کے انعقاد تک جاری رہے گا۔ واضح رہے کہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہفتے کی شام پہلا میچ لاہور قلندر اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان کھیلا گیا۔ اس حوالے سے سخت سیکورٹی اقدامات کیے گئے تھے۔ میچز دیکھنے کیلئے دوسرے شہروں سے بھی شائقین کی بڑی تعداد کراچی پہنچی ہے۔ نوجوانوں کے ساتھ خواتین اور بچے بھی اسٹیڈیم آئے۔ تماشائیوں کو ٹکٹ کے ساتھ اصل شناختی کارڈ لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ شائقین کو نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف بنائے گئے 5 پارکنگ ایریاز میں 2 بجے سے 5 بجے تک آنے کی ہدایات دی گئی تھی۔ جبکہ دوپہر ایک بجے اسٹیڈیم کے عقبی علاقے، کے ڈی اے بنگلوز سے فاران کلب اور دیگر علاقوں کی سڑکیں رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کردی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ نیشنل اسٹیڈیم آنے والی چار سڑکیں بند کی گئیں، جن میں ڈالمیا روڈ، ملینیم شاپنگ مال سے اسٹیڈیم تک، نیوٹاؤن سے آنے والی سڑکیں، آغا خان اسپتال سے اسٹیڈیم تک، حسن اسکوائر فلائی اورر اور نیچے سے اسٹیڈیم تک جبکہ شاہراہ فیصل پر کارساز سے اسٹیڈیم تک سڑکیں عام ٹریفک کیلئے دوپہر کو ہی بند کردی گئی تھیں۔ کھلاڑیوں اور آفیشلز کی آمدورفت کی وجہ سے شاہراہ فیصل بار بار بند کی جاتی رہی۔ مختلف سڑکوں کی بندش کی وجہ سے دیگر سڑکوں پر ٹریفک جام رہا اور شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی اقدامات ضرور کیے جائیں۔ تاہم سڑکیں بند نہ کی جائیں۔ دوسری جانب تماشائیوں کو 4 مقامات پر چیکنگ کے بعد اسٹیڈیم میں جانے کی اجازت دی گئی۔ پہلے پارکنگ ایریا میں جامہ تلاشی لی گئی، ٹکٹ اور اصل شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد کھانے پینے کی اشیا، سگریٹ، نسوار، گٹکا، ماچس، لائٹر اور دیگر چیزیں روک لی گئیں۔ خواتین کو پرس لے جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ تماشائیوں کو واک تھرو گیٹ سے گزار کر شٹل سروس کے ذریعے اسٹیڈیم کے قریب لے جایا جاتا رہا۔ ان بسوں میں رینجرز اور پولیس اہلکار موجود تھے۔ شٹل سروس کی گاڑیوں نے شائقین کو ایکسپو سینٹر کے سامنے حسن اسکوائر فلائی اورر کے نیچے اتار دیا۔ وہاں بھی جامہ تلاشی اور واک تھرو گیٹ سے گزار کر اسٹیڈیم بھیجا جاتا رہا۔ تیسرا چیکنگ پوائنٹ عزیز بھٹی تھانے کے سامنے بنایا گیا تھا۔ وہاں بھی جامہ تلاشی اور واک تھرو گیٹ سے گزارا گیا۔ اس کے بعد اسٹیدیم کے گیٹ پر پولیس اور رینجرز کے جوان جامہ تلاشی لے رہے تھے۔ بعض لوگوں نے اتنی سختی پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قدر تکلیف اٹھانے کے بعد میچ دیکھنے کا خاک مزہ آئے گا۔ ان تمام مشکلات کا علم ہونے کے باوجود کرکٹ کے سینکڑوں متوالے دوپہر بارہ بجے ہی ٹکٹ اور اصل شناختی کارڈ لئے نیشنل اسٹیڈیم کے مرکزی گیٹ کے سامنے چوراہے پر پہنچ تھے۔ تاہم ان کو سہ پہر تین بجے تک روک کے رکھا گیا اور وہ فٹ پاتھ پر گھومتے رہے۔ اسٹیڈیم کے اطراف انڈس یونیورسٹی اور دیگر بلند عمارتوں پر رینجرز اور پولیس کے اسنائپرز تعینات تھے، دوپہر سے ہی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی شروع کردی گئی تھی۔ اسٹیڈیم کی سیکورٹی فوج کے پاس تھی۔ جبکہ رینجرز اور پولیس کے 13 ہزار سے زائد اہلکار تعینات تھے۔ میچ دیکھنے کیلئے آنے والی خواتین اور بچوں کی چیکنگ رینجرز اور پولیس کی خواتین اہلکار کررہی تھی۔ پولیس کا گھڑ سوار دستہ بھی اسٹیڈیم کے اطراف گشت کرتا رہا۔ جبکہ 50 موبائلوں اور 100 موٹر سائیکلوں پر سوار اہلکار بھی اطراف کے علاقوں میں مستعدی کے ساتھ چکر لگاتے رہے۔ موٹر سائیکل سوار اہلکاروں کے پاس اسلحہ کے ساتھ آگ بھجانے والے سلینڈر اور فرسٹ ایڈ کٹ بھی تھی۔ شام 5 بجے جب اسٹیڈیم کے اندر لاہور قلندر اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیمیں پہنچیں تو آئی سی سی کے سیکورٹی ایکسپرٹ کی ٹیم بھی موجود تھی۔ جن کو سیکورٹی اداروں کے اعلی افسران نے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اسٹیڈیم کے اندر 90 خفیہ کیمرے اور اطراف میں 300 کیمرے لگائے گئے تھے، جن کو اسٹیڈیم کے اندر واقع کنٹرول روم سے فوج، رینجرز اور پولیس کے اہلکار مانیٹر کررہے تھے۔ تماشائیوں کیلئے 5 اور وی آئی پیز کیلئے ایک پارکنگ ایریا بنایا گیا تھا، جہاں کراچی کنگز کا نام نمایاں طور پر لگایا گیا تھا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں لاہور قلندر کے حوالے سے سجاوٹ کی گئی تھی اور اس کو قلندر گراؤنڈ کا نام دیا گیا تھا۔ پارکنگ ایریا میں ہزاروں گاڑیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ تماشائیوں کیلئے ٹینٹ لگا کر کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ کنٹینرز میں عارضی واش روم بنائے گئے تھے۔ چھیپا ویلفیئر ٹرسٹ کی ایمبولینس کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے تماشائیوں کیلئے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کیا گیا تھا۔ پارکنگ ایریا میں فوری طبی امداد، اسٹریچر اور وہیل چیئر کی سہولت بھی تھی۔ ہمدرد کمپنی کی جانب سے شائقین کو روح افزا کا شربت پلایا جارہا تھا۔ میچوں کے ٹکٹ چونکہ 500 روپے سے 8 ہزار روپے تک تھے۔ اس لئے غریب طبقہ اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے سے محروم رہا۔ اسٹیڈیم کے دروازے 5 بجے بند ہونا تھے، لیکن تماشائیوں کے رش کی وجہ سے وقت بڑھا دیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭